آیت 85
 

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: روح میرے رب کے امر سے متعلق (ایک راز) ہے اور تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

شان نزول: ابن عباس راوی ہیں کہ مشرکین قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتلا دیں کہ ہم اس شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیں۔ جس پر یہودیوں نے کہا: اس سے روح کے بارے میں پوچھ لو اور دیکھ لو کیا جواب ملتا ہے۔۔۔۔ الی آخر۔ (مجمع البیان ذیل آیہ)

تفسیر آیات

روح: اس قوت کا نام ہے جس سے ’’حیات‘‘ کی بنیاد پڑتی ہے۔ اسی سے علم اور ہدایت کو بھی روح کہتے ہیں جن سے حیات مزید فعال ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن اور وحی کو روح کہا گیا ہے۔

حیات کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ابھی تک ایک سربستہ راز ہے جو سینۂ قدرت میں پنہان ہے تاہم سائنسدانوں کو اس سلسلے میں کچھ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔

چنانچہ ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کو ایک عظیم انکشاف کا اہم ترین دن قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس روز سینہ کائنات میں پوشیدہ ایک راز ’’راز حیات‘‘ سے پردہ اٹھ گیا اور انسان کے D.N.A میں موجود تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جنیاتی کوڈ کا معمہ حل ہو گیا۔ اس انکشاف سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تمام زندہ موجودات کے لیے جبلتی ہدایات اللہ نے خلیات (Cell) کے مرکزی حصے D.N.A میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب چھوٹے سالموں پر مشتمل ہے اور حیات کا راز انہیں سالموں اور ان کی منظم ترتیب میں پوشیدہ ہے۔

اس آیہ شریفہ میں روح سے کیا مراد ہے؟ مفسرین میں بڑا اختلاف ہے۔ ان اقوال میں دو قول قابل ذکر ہیں :

i۔ روح سے مراد جبرائیل امین ہیں کہ لوگوں نے جبرئیل کے بارے میں سوال کیا تھا۔

ii۔ روح سے مراد وہی قوت ہے جو منبع حیات ہے۔ ہم بھی اسے اختیار کرتے ہیں۔

علامہ طباطبائی نے اس جگہ ایک اہم نکتہ بیان فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:

روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ ۔۔۔۔ کا اضافہ فرمایا: اس میں مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ، جیسا کہ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ ۔۔۔۔(۴۰ مومن: ۱۵)، یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ ۔۔۔(نحل: ۲)، وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ۔۔۔۔ (۴۲ شوری: ۵۲)، تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ﴿﴾ ۔ (۹۷ قدر: ۴) ان سب میں فرمایا۔ روح کا تعلق عالم امری سے ہے۔ عالم امری کے بارے میں فرمایا: اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿﴾ ۔ (۳۶ یٰس: ۸۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امر خدا سے مراد قول خدا کُنۡ ہے اور کُنۡ کلمہ ایجاد اور ایجاد فعل خدا ہے۔ لہٰذا قول خدا، فعل خدا سے عبارت ہے۔ آیہ وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ﴿﴾ ۔ (۵۴ قمر: ۵۰) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قول خدا فعل خدا ہے اور اس امر میں اسباب وجودیہ بروئے کار نہیں لائے جاتے۔ اس لیے اسے کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ چشم زدن کہا ہے۔ عالم اسباب سے متعلق اللہ کا عمل، زمانی اور تدریجی ہے اور جو عمل عالم اسباب سے متعلق نہیں ، وہ غیر زمانی ہے۔ جو عمل زمانی و تدریجی ہے اسے خلق کہتے ہیں اور جو عمل غیر زمانی ہے، اسے امر کہتے ہیں۔ لہٰذا خلق وہ ہے جو اسباب و علل کے ذریعے اللہ کی طرف منسوب ہو اور امر وہ ہے جو براہ راست اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۵۴) آگاہ رہو آفرنیش بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے۔ روح کا تعلق بھی عالم امر سے ہے جو غیر زمانی ہے اور بغیر علل و اسباب کے توسط کے براہ راست اللہ کی طرف منسوب ہے۔

ممکن ہے آنے والا زمانہ اس راز سے پردہ اٹھائے کہ روح اور حیات کا تعلق کس طرح براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ملاصدرا روح کو مادی الحدوث روحانی البقاء سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک روح مادہ کے ارتقاء کا آخری نتیجہ ہے۔ یعنی روح مادے کی گود میں پلتی ہے، پھر مستقل اور مستغنی عن المادہ ہو جاتی ہے۔

استقلال روح: ہم اس بات پر چند شواہد پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ روح اپنا مستقل وجود رکھتی ہے چونکہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ روح کسی مستقل وجود کا نام اور غیر مادی نہیں ہے بلکہ روح بھی مادہ ہی ہے اور مادے کے طبیعیاتی اور کیمیائی عمل سے عبارت ہے:

i۔ سچے خواب: خواب میں انسانی روح اپنے دماغ کے طبیعیاتی عمل سے استفادہ کیے بغیر از خود سماعت و بصارت کی قوت رکھتی ہے۔ چنانچہ وہ خواب میں آوازوں کو سنتی، باتوں کو سمجھتی ہے، شکلوں کو پہچان لیتی ہے حالانکہ جن چیزوں کو خواب میں دیکھا، جن آوازوں کو سنا، جن شکلوں کو پہچانا ہے یہ سب طبیعیاتی اور کیمیائی عمل سے نہیں گزرے ، اس کی آنکھیں خواب کی حالت میں بند ہیں۔ کانوں سے کوئی طبیعی آواز نہیں ٹکرائی اس کے باوجود جو کچھ اس نے خواب میں دیکھا وہ سچا اور واقع کے عین مطابق ثابت ہو جاتا ہے۔

ii۔ ارادہ: پانچ کلومیٹر مسافت طے کرنے کے لیے گاڑی کو ایک لیٹر پیڑول کی ضرورت ہے تو پچاس کلومیٹر طے کرنے کے لیے دس لیٹر کی ضرورت ہے اور ممکن نہیں پانچ لیٹر کفایت کرے۔ یہ قانون دنیا کے کسی گوشے میں بھی قابل استثنا نہیں ہے۔

مگر جو ارادہ سو کلومیٹر طے کرنے کے لیے درکار ہے اسی قسم کا ارادہ ہزار کلومیٹر طے کرنے کے لیے درکار ہے۔

اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عزم و ارادہ روح کا عمل ہے۔ اس لیے یہ فیزیکل قواعد اور مادی قوانین سے خارج ہے۔

iii۔ مادہ کی تبدیلی: انسان کا مادی وجود ہر سات سال میں کلی طور پر بدل جاتا ہے لیکن انسان اپنی طفولیت سے بڑھاپے تک ایک حقیقت واحدہ رہتا ہے۔

اس کی مزید وضاحت یہ ہے: انسان کا جسم ایک شہر کی طرح ہے جس کی مختلف عمارتیں گرتی بنتی رہتی ہیں اور سو دو سو سالوں میں پورا شہر بدل جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کھربوں خلیوں (Cells) پر مشتمل ہے اور خلیے کی بھی عمر ہوتی ہے۔ بوسیدہ سیلز مر جاتے ہیں ان کی جگہ خون نئے سیلز بناتا ہے۔ اس طرح ہمارا مادی وجود سات سالوں میں بدل جاتا ہے لیکن اس سے ہماری شخصیت کی وحدت متاثر نہیں ہوتی۔ اس سے معلوم ہوا جو بدلتا ہے وہ مادہ ہے اور جو نہیں بدلتا وہ روح ہے۔

iv۔ فکری صلاحیت: کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں بارہ ملین سیلز موجود ہیں لیکن انسانی دماغ دس لاکھ ملین معلومات کے ادراک کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا انسانی فکر روح کا عمل ہے، دماغی خلیات میں محدود نہیں ہے۔

v۔روح کی توجہ: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے انسان کے پہلو میں ایک گفتگو ہو رہی ہے اور وہ انسان کسی اور بات میں مشغول ہے۔ اس گفتگو کی طرف متوجہ نہیں ہے۔ اس گفتگو کی آواز کی لہریں سماعت کے اعصاب سے ٹکرا رہی ہیں ، یہ لہریں دماغ تک پہنچ رہی ہیں اور مادی عمل مکمل ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان اس آواز کو نہیں سن پاتا چونکہ اس کی روح متوجہ نہیں ہے۔ لہٰذا اگر یہ ادراک مادی اور طبیعاتی عمل سے عبارت ہوتا تو اس کے ادراک کے لیے طبیعاتی عمل مکمل ہونے کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ جب کہ ہم نے دیکھا ہے کہ روح متوجہ نہ ہونے کی صورت میں طبیعیاتی عمل سے کوئی ادراک عمل میں نہیں آیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دماغ روح کا آلہ کار ہے۔

روح کے مادی ہونے پر دلائل

i۔ روح چونکہ دائرہ تجربہ میں آتی ہے نہ ہمارے حواس میں۔ جو چیز حواس میں نہیں آتی اسے ہم قبول نہیں کرتے۔

جواب: اولاً ان کی یہی بات خود غیر تجرباتی ہے۔ ثانیاً تجربات سے کلی نتائج اخذکرنے کے لیے غیر تجرباتی امو کو ماننا پڑتا ہے چونکہ تجربہ تمام افراد پر نہیں ہوتا بعض پر ہوتا ہے پھر عقلی کلیہ کے ذریعے تمام افراد پر لاگو کیا جاتا ہے۔ ثالثاً غیر تجرباتی امور کو اگر وہ قبول نہیں کر سکتے ہیں تو مسترد بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جیسا کہ قبول کرنے کے لیے تجربہ درکار ہے تو مستردکرنے کے لیے بھی تجربے کی ضرورت ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو سورہ بقرۃ آیت ۳۔

ii۔ فکری فعالیت دماغی حالات سے متاثر ہوتی ہے۔ مثلاً دماغ کا ایک حصہ بیکار ہو جائے تو انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ فکری فعالیت سے دماغی سطح پر تغیرات پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ سوچنے سے دماغ زیادہ غذا لیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والوں کا دماغ زیادہ بڑا ہوتا ہے وغیرہ۔

جواب: روح جب تک اس بدن کی حدود میں ہوتی ہے تو روح سوچنے کے لیے دماغ کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس آلہ کے ذریعے ہی سوچ سکتی ہے۔

دماغ خود سوچنے اور درک کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اگر دماغ خود درک کرنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا تو روح کی توجہ کے بغیر یہ کام انجام پانا چاہیے تھا جب کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ روح متوجہ نہ ہونے کی صورت میں اگر صوتی لہریں دماغ تک پہنچ بھی جائیں دماغ آواز کو درک نہیں کرتا کیونکہ روح اس دماغ کواستعمال نہیں کر رہی۔

روح اور بدن کا تعلق: روح کو ہم غیرمادی مانتے ہیں تو اس صورت میں روح بدن میں تدبیر کنندہ کی حیثیت سے موجود ہے۔ چونکہ روح غیر مادی ہے اس کے لیے مکان کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا جسم انسانی روح کے لیے مکان نہیں ہے، نہ ہی روح نے جسم میں حلول کیا ہوا ہے بلکہ روح، جسم کی حاکم و مدبر ہے۔

کیا روح کسی قسم کے جسم کے بغیر موجود ہو سکتی ہے یا اسے کسی قسم کا جسم درکار ہے؟ اس سلسلے میں جواب مثبت ہے۔ روح کسی نہ کسی قسم کے جسم میں ہوتی ہے:

i۔ عالم ذر کا جسم: اس کی حقیقت معلوم نہیں ہے کہ عالم ذر میں وقتی طور پر کس قسم کے جسم میں موجود رہی ہے۔

ii۔ فیزیکلی جسم: رحم مادر سے لے کر مرنے تک جس مادی جسم میں ہماری روح موجود ہے۔

iii۔ برزخی جسم: مرنے کے بعد سے لے کر قیامت تک جس جسم میں ہوتی ہے اسے برزخی جسم کا نام دے سکتے ہیں۔

iv۔ آخرت کا فیزیکلی جسم: قیامت کے موقع پر جنت یا جہنم میں اس روح کو جس قسم کا جسم میسر آئے گا وہ یقینا دنیوی فیزیکلی جسم سے مختلف ہو گا۔ وہاں زمان و مکان و دیگر محسوسات، مشاہدات و ادراکات اس دنیا سے مختلف ہوں گے۔

v۔ اثیری جسم: جدید علم ارواح کے ماہرین اس قسم کے جسم کے قائل ہیں مگر اس عقیدے کے مطابق ایک روح متعدد فیزیکلی جسموں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

یہ دراصل تناسخ الارواح کا عقیدہ ہے جو اسلامی نظریات کے ساتھ متصادم اور باطل نظریہ ہے۔

کیا غیر مادی روح مادی جسم کی محتاج ہے؟: روح، غیر مادی ہونے کی وجہ سے زمان و مکان سے بالاتر ہے تاہم روح کے دو مختلف حالات ہیں۔ ایک حالت میں ممکن ہے کہ روح جسم کی محتاج نہ ہو لیکن جہاں کمالات کا حصول جسم پر موقوف ہے وہاں روح بھی جسم کی محتاج ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، حج، جہاد و دیگر اطاعات کے ذریعے روح ارتقاء حاصل کرتی ہے۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو مقدمہ مباحث وحی۔

اہم نکات

۱۔ روح کا تعلق امر ربی کُنۡ فَیَکُوۡنُ سے ہے: مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ ۔۔۔۔

۲۔ علم اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے: وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ ۔۔۔۔

۳۔ بشر کا علم قلیل ہوتا ہے: اِلَّا قَلِیۡلًا ۔


آیت 85