آیات 83 - 84
 

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَــُٔوۡسًا﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور اپنی کروٹ پھیر لیتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔

قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ؕ فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا﴿٪۸۴﴾

۸۴۔کہدیجئے: ہر شخص اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے، پس تمہارا رب بہتر علم رکھتا ہے کہ کون بہترین راہ ہدایت پر ہے۔

تشریح کلمات

شَاکِلَتِہٖ:

( ش ک ل ) شاکلۃ ای علی جدیلتہ و طریقتہ و جہتہ ( صحاح )

شاکلۃ ای ناحیتہ و طریقتہ بدلیل قولہ ہُوَاَہْدٰى سَبِيْلًا ای طریقا ( مجمع البحرین ) اس تشریح کے مطابق شَاکِلَتِہٖ طریقہ کے معنوں میں ہے۔ ویقال شاکلتہ ای خلیقتہ و طبیعتہ ۔ اس کے مطابق شَاکِلَتِہٖ مزاج اور طبیعت کے معنوں میں ہے۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں آیا ہے: ای نیتہ ۔ شَاکِلَتِہٖ کے معنی نیت کے ہیں۔ ( مجمع البحرین )

تفسیر آیات

جس انسان کی شخصیت میں ایمان و بندگی راسخ نہیں ہے وہ شخصیت بے ثباتی، بے سکونی اور عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے۔ حوادث روزگار کا معمولی جھٹکا اس کی شخصیت کو منہدم کر دیتا ہے۔ نعمتوں کی فروانی ہو یا گردش ایام کا کوئی ناگوار حادثہ دونوں حالتوں میں وہ اپنی شخصیت میں اعتدال برقرار نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ نعمت کی فروانی کی صورت میں سرکش ہو جاتا ہے اور کسی ناگوار حادثہ کی صورت میں یاس و نومیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿﴾ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿﴾ وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿﴾ اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪﴾ (۷۰ معارج:۱۹ تا ۲۳)

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، سوائے نماز گزاروں کے،جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔

لہٰذا جس کی شخصیت ایمان و بندگی پر استوار ہے وہ نعمتوں میں شاکر اور مصیبتوں میں صابر ہوتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان (کو اگر ایمان و بندگی سے دور رکھا جائے تو اپنی جگہ) نہایت کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔ نہ خوشحالی کی صورت میں توازن برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی مصیبت برداشت کر سکتا ہے۔

مصیبت کے متحمل نہ ہونے اور یاس و نومیدی کا شکار ہونے کے بعد اگر اس کی فطرت بیدار ہو جاتی ہے اور اپنے خالق حقیقی کی پناہ میں چلا جاتا ہے تو یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ لہٰذا اس آیہ شریفہ کا دیگر ان آیات سے کوئی تصادم نہیں جو فرماتی ہیں :

وَ مَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعۡمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیۡہِ تَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿﴾ (۱۶ نحل: ۵۳)

اور تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو تم اس کے حضور زاری کرتے ہو۔

ان آیات کا تعلق دوسرے مرحلے سے ہے۔ اس قسم کا کھوکھلا انسان پہلے یاس و ناامیدی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی فطرت جاگ جاتی ہے اور وہ اللہ کے حضور زاری کرتا ہے یا ممکن ہے اس کا تعلق ان لوگوں سے ہو جو فطری تقاضوں سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی فطرت کی بیداری کی نوبت نہیں آتی اور یاس و ناامیدی کا شکار رہتے ہیں۔

دوسری آیت میں فرمایا: قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ہر شخص اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے۔ شَاکِلَتِہٖ بمعنی طریقہ لینے کی صورت میں آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: مومن اور ظالم کا طریقہ عمل جدا ہوتا ہے۔ مومن قرآن سے شفا و رحمت حاصل کرتا ہے اور ظالم اسی قرآن سے خسارہ اٹھاتا ہے۔ مومن نعمت کے موقع شاکر اور مصیبت کے موقع پر صابر رہتا ہے۔ جب کہ ظالم نعمت کے موقع پر اتراتا ہے اور مصیبت کے موقع پر یاس کا شکار ہو جاتا ہے۔

آیت کا ذیل فَرَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ہُوَ اَہۡدٰی سَبِیۡلًا قرینہ بن سکتا ہے کہ شَاکِلَتِہٖ طریقہ کے معنوں میں ہے چونکہ سبیل، وہی طریقہ ہی ہے۔ ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے۔ پس تمہارا رب بہتر جانتا ہے کون بہتر طریقے پر ہے۔

اگر لفظ شَاکِلَتِہٖ کو خلق و طبیعت کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ بنے گا: مومن اور ظالم میں سے ہر شخص اپنے اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل بجا لاتا ہے۔ انسان کا کردار اس کا ضمیر فاش کرتا ہے اور ظاہری عمل باطنی ترجیحات پر دلالت کرتا ہے۔ اگر انسان اپنے مزاج و طبیعت میں عادل ہے تو اس سے عمل صالح نہایت آسانی سے صادر ہو جاتا ہے اور جس کا مزاج ظلم پسند ہے اس سے کار خیر سرزد نہیں ہوتا۔ درحقیقت ان دونوں معنوں کا نتیجہ ایک ہی ہے چونکہ ہر ایک کا طریقہ عمل اپنا ہوتا ہے لیکن اس کا محرک اس کا اپنا خلق و طبیعت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لَو عَلِمَ النَّاسُ کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ ھَذَا الْخَلْقَ لَمْ یَلُمْ اَحَدٌ اَحَداً ۔ (الکافی ۲: ۴۴)

اگر لوگوں کو یہ علم ہو جاتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو کس طرح خلق فرمایا ہے تو کوئی کسی کی ملامت نہ کرتا۔

ممکن ہے اشارہ انسانی D.N.A میں موجود جین Gene کی طرف ہو جس میں وہ بنیادی نقشہ ہوتا ہے جس پر آگے چل کر انسان کی شخصیت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے:

وَ النِّیَّۃُ اَفْضَلُ مِنَ الْعَمَلِ اَلَا وَ اِنَّ النِّیَّّۃَ ہِیَ الْعَمَلُ ثُمَّ تَلَا قَوْلَہُ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِہٖ یَعْنِی عَلَی نِیَّتِہِ ۔ (الکافی ۲:۱۶۔ نور الثقلین ۲: ۱۱۴)

اور نیت عمل سے افضل ہے بلکہ نیت ہی عمل ہے، اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ یعنی شاکلہ کے معنی نیت ہے۔

اس سے بھی نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ ہر ایک کی نیت اس کے خلق و خو کے تابع ہے اور اسی سے اس کے طریقہ عمل کا تعین ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ظالم انسان کھوکھلا اور عدم توازن کا شکار ہوتا ہے۔

۲۔ انسان کا عمل اس کے ضمیر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔


آیات 83 - 84