آیت 81
 

وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔

تفسیر آیات

حق کو بقا کا حق حاصل ہے کیونکہ حق کے عناصر فطری ہوتے ہیں۔ حق کا سرچشمہ صداقت ہے۔ حق کی بقا کے عوامل اس کے اپنے ذاتی ہوتے ہیں۔

جب کہ باطل کے عناصر غیر فطری ہوتے ہیں۔ اس کے عوامل بھی وقتی اور بیرونی ہوتے ہیں۔ اس لیے باطل خس و خاشاک کی مانند وقتی اچھل کود کرتا ہے:

کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۷)

اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔۔۔۔

یہ اعلان مکی زندگی کے نہایت سنگین مظالم کے سائے میں ہو رہا ہے۔ ان مظالم سے تنگ آ کر کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور بظاہر کامیابی کے آثار بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ زیادہ

عرصہ نہیں گزرا کہ اسی مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتوں پر ضرب لگا رہے ہیں اور اسی آیت کی تلاوت فرما رہے ہیں۔

جابر بن عبد اللّٰہ انصاری روایت کرتے ہیں:

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر مکہ داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر سب بتوں کو گرا دیا مگر کعبہ پر ایک طویل بت نصب تھا جسے ھبل کہتے تھے۔ رسول اللہؐ نے علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علیؑ! آپ مجھ پر سوار ہوں گے یا میں آپ پر سوار ہو جاؤں؟ عرض کیا: آپ مجھ پر سوار ہو جائیں لیکن سوار ہونے پر علی علیہ السلام رسالت کا بوجھ نہ اٹھا سکے تو میں (علی) نے کہا: میں سوار ہوتا ہوں۔ علیؑ دوش رسولؐ پر فائز ہوئے تو فرمایا:

فو الذّی خلق الجنۃ و برء النسمۃ لو اردت ان اَمس السمآء لمستَہا بیدی فالقیت ھبل عن ظہر الکعبۃ ۔

قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو شگافتہ اور لوگوں کو خلق کیا۔ اگر میں آسمان کو چھونا چاہتا تو چھو سکتا تھا۔ پھر میں نے کعبہ سے ھبل کو گرا دیا۔

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ ۔۔۔۔

ملاحظہ ہو مستدرک حاکم کتاب التفسیر ۔ تفصیل کے لیے رجوع فرمائیں تعلیقات شواھد التنزیل ۔

اہم نکات

۱۔ باطل کو بقا و دوام کا حق حاصل نہیں ہے۔

۲۔ اہل حق باطل کی اچھل کود سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ حق کے ظہور کا انتظار کرتے ہیں۔


آیت 81