آیت 80
 

وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور یوں کہیے: میرے رب! تو مجھے (ہر مرحلہ میں ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ (اس سے) نکال اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی تلقین ہے اور اس تلقین میں اخلاص عمل کی ایک دعوت ہے۔ جو عمل بھی سرزد ہو اس کے بارے میں ظاہر و باطن ایک، نیت اور عمل میں توافق ہو تو وہ سچا ہوتا ہے۔ کسی عمل میں قدم رکھتے ہوئے سچائی یہ ہے کہ جو عمل بجا لایا اور چھوڑا جا رہا ہے، سب محض اللہ کے لیے ہو اور کسی عمل سے فارغ ہوتے ہوئے بھی سچائی یہ ہے کہ اس عمل پر اترائے نہ نام و نمود کی توقع رکھے۔ صرف اللہ کی خوشنودی کی توقع رکھی جائے۔

مفسرین نے اس داخل اور خارج ہونے سے، مکہ سے خارج اور مدینہ میں داخل ہونا مراد لیا ہے چونکہ یہ آیت ہجرت کے قریبی دنوں میں نازل ہوئی ہے لیکن آیت کے الفاظ میں عمومیت ہے۔ اس میں تمام امور شامل ہیں۔

سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا: نفاذ اسلام کے اقتدار و طاقت کی طرف اشارہ ہے کہ حدود اللہ کے اجراء اور عدل و انصاف کے نظام کا قائم کرنا عادلانہ حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ آیت میں فرمایا: وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مجھے یعنی رسولؐ کو اقتدار عطا فرما۔ اسی طرح رسولؐ کے جانشین کو اگر اقتدار مل جاتا ہے تو عدل قائم ہو جاتا ہے: وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ۔ مجھے اپنے ہاں سے ایک قوت عطا فرما جو مدد گار ثابت ہو۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں : اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول فرمائی اور علی بن ابی طالب کو قوت کے طور پر عطا فرمایا جو دشمنوں کے مقابلے میں آپؐ کی مدد کرے۔ ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ذیل آیت۔

اہم نکات

۱۔ کامیابی کا راز تمام مراحل میں سچائی میں مضمر ہے۔

۲۔ نفاذ اسلام کے لیے اقتدار کا حصول مطلوب ہے۔


آیت 80