آیت 78
 

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا﴿۷۸﴾

۷۸۔ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو اور فجر کی نماز بھی کیونکہ فجر کی نماز (ملائکہ کے) حضور کا وقت ہے۔

تشریح کلمات

دلوک:

( د ل ک ) دلکت الشمس دلوکا۔ زالت۔ (صحاح) دلوک الشمس کے معنی ہیں آفتاب کا مائل بہ غروب ہونا۔

غَسَقِ:

( غ س ق ) غَسَقِ الَّیۡلِ کے معنی شب کی سخت تاریکی کے ہیں (راغب) الغسق اول ظلمۃ اللیل رات کی تاریکی کی ابتدا کے معنوں میں ہیں (صحاح)

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں پانچ نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت ہے: دلوک الشمس سے مراد زوال آفتاب اور غَسَقِ الَّیۡلِ سے مراد نصف شب ہے اور قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ سے مراد صبح کی نماز ہے۔

چنانچہ زرارہ، حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے ان لفظوں میں روایت کرتے ہیں :

دُلُوکُھَا زَوَالُھَا فَفِیمَا بَیْنَ دَلُوکِ الشَّمْسِ اِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ اَرْبَعُ صَلَوَاتٍ سَمَّاہُنَّ اللّٰہُ وَ بَیَّنَہُنَّ وَ وَقَّتَہُنَّ وَ غَسَقُ اللَّیْلِ ہُوَ انْتِصَافُہُ ثُمَّ قَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا فہذہ الخامسۃ ۔۔۔۔ (الکافی ۳: ۲۷۱)

دلوک کا معنی زوال آفتاب ہے۔ غَسَقِ الَّیۡلِ تک میں چار نمازیں ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے اور واضح کیا ہے اور وقت کا تعین کیا ہے اور غَسَقِ الَّیۡلِ آدھی رات تک ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ۔ یہ پانچویں نماز ہے۔

ا ِاِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا: صبح کی نماز کے بارے میں امامیہ و غیر امامیہ مصادر میں آیا ہے:

صلاۃ الفجر تشہد ہ ملائکۃ اللیل و ملائکۃ النھار ۔۔۔۔ (الکافی ۳: ۲۸۲)

رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز صبح کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

لہٰذا صبح کی نماز، فجر کے اول وقت میں پڑھی جائے تو ان فرشتوں کے مشاہدے میں آتی ہے جو نہایت فضلیت کی بات ہے۔

جمع بین الصلوٰتین: آیت میں نمازوں کے لیے تین اوقات کا ذکر ہے۔

الف: لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ ۔ زوال آفتاب۔

ب: غَسَقِ الَّیۡلِ رات کے اندھیرے تک۔

ج: وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ۔ فجر کی نماز۔

اگرچہ آیت سے پانچ اوقات ظاہر نہیں ہوتے تاہم احادیث وسیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیت کی تشریح ہو جاتی ہے کہ نمازیں پانچ اور اوقات تین کیسے ہیں ؟ کیا احادیث اور سیرت نے پانچ نمازوں کے لیے پانچ اوقات کو لازم قرار دیا ہے؟ یا پانچ نمازوں کے لیے تین اوقات کو لازم قرار دیا ہے؟ مجموعی سیرت و احادیث سے ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک کو لازم قرار دینا ثابت نہیں ہوتا چونکہ عصر رسالت میں جمعاً و تفریقاً دونوں طریقوں سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ جمعاً پڑھیں تو تفریقاً پڑھنے سے منع نہیں فرمایا اور تفریقاً پڑھیں تو جمعاً پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔

i۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے۔ عمرو بن دینا کہتے ہیں: میں نے جابر بن زید سے سنا جو ابن عباس سے روایت کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبعا جمعا و ثمانیا جمعیا۔ سات رکعتیں (مغرب و عشا) ایک ساتھ اور آٹھ رکعتیں (ظہر و عصر) ایک ساتھ پڑھیں۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب وقت المغرب جلد اول صفحہ ۱۴۷۔ صحیح مسلم باب جمع بین الصلوتین جلد اول صفحہ ۱۴۶۔

ii۔ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کی روایت ہے۔ ابن عباس راوی ہیں : جمع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) وسلم بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء بالمدینۃ فی غیر خوف و لامطر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشا کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر ایک ساتھ جمع کر کے پڑھا۔ ابن عباس سے پوچھا گیا: جمعاً پڑھنے کی وجہ کیا تھی؟ تو انہوں نے کہا: اراد ان لا یحرج امتہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں کہ امت مشقت میں نہ پڑے۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب جمع بین الصلوتین، سنن ترمذی باب ماجاء فی الجمع بین الصلوتین ۔ ابن مسعود کی روایت کے مطابق کسی خوف اور بارش کے بغیر جب رسول اللہ صلی علیہ وآلہ و سلم نے جمعاً پڑھی تو سوال ہونے پر فرمایا: صنعت ھذا لئلاتحرج امتی ۔ (فتح الباری ۳: ۳۰۷) یہ میں نے اس لیے کیا کہ میری امت کو دشواری نہ ہو۔

مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو شرح صحیح مسلم نووی ۔ جس میں جمع بین الصلوۃ کے حق میں بہت سی احادیث کا ذکر ہے اور کتاب فلک النجاۃ میں بھی تسلی بخش تحقیق موجود ہے۔

ارسال الیدین : نماز میں ہاتھ باندھنا مستحب ہے یا نہیں ، اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ہاتھ باندھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا واجب ہے۔ ہاتھ باندھنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے لہٰذا ہاتھ کھول کر پڑھی جانے والی نماز صحیح ہے۔ جب کہ ہاتھ باندھ کر پڑھی جانے والی نماز مشکوک الصحۃ ہے۔ ہاتھ باندھنے کے مستحب ہونے پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں اس خلاصہ یہ ہے:

صحیح بخاری کی روایت۔ سہل بن سعد راوی ہیں :

کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوۃ ۔

لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ، بائیں ذراع (کلائی سے اوپر) رکھا جائے۔

اس میں حکم دینے والے کا ذکر نہیں ہے۔ اگر یہ روایت زمان رسولؐ سے متعلق ہے تو حکم دینے والے رسولؐ ہو سکتے ہیں۔ اگر روایت خلفاء کے زمانے کی ہے تو حکم دینے والے خلفاء ہوں گے۔ پس سہل نے یہ بات کس کے زمانے کی کی ہے؟ معلوم نہیں ہے تو ہو سکتا ہے یہ حکم، فرمان خلفاء میں صادر ہونے والا کوئی حکم ہو۔ چنانچہ قاری حنفی نے شرح موطا میں کہا ہے:

یؤمرون یعنی یأمرھم الخلفاء الاربعۃ اولامراء ۔

یہ امر چاروں خلفاء اور امیروں کی طرف سے ہوتا ہے۔

چنانچہ وضو کے مسئلے میں ہم نے بیان کیا کہ پاؤں دھونے کا حکم خلیفہ نے دیا تھا۔ اس پر ایک شاہد انس بن مالک کی روایت ہے۔ انہوں نے کہا: کان یؤمر بالسوط ۔ تازیانے کا حکم دیا جاتا تھا۔ انس سے پوچھا گیا: کس کے زمانے میں؟ کہا: عمر بن الخطاب کے زمانے میں۔ملاحظہ ہو المصنف ۱۰:۵۰۔

ہاتھ باندھنے کے بارے میں طاؤس کی روایت جو سنن ابی داؤد ۱: ۴۸۱ میں ہے، مرسلہ ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہے۔ چونکہ طاؤوس تابعی تھے۔ اسی طرح حبۃ الملک بن سعد کی روایت بھی مخدوش ہے چونکہ اس میں کبھی عن رجل کہا ہے، کبھی راوی کا نام تردد کے ساتھ لیا گیا ہے۔اس طرح یہ روایت، مسند اور مرسل میں متردّد ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہے۔

اس روایت کے مقابلے میں معاذ بن جبل کی روایت ہے:

ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کان فی صلاتہ رفع یدیہ قبال اذنیہ فاذاکبر ارسلھما ثم سکت: وربما رأیتہ یضع یمینہ علی یسارہ ۔ ( معجم الکبیر طبرانی ۲۰: ۶۳ رقم ۱۳۹۔ المصنف لابی شیبہ ۱: ۳۹۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرتے تھے اور تکبیر کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑ دیتے تھے۔۔۔۔ کبھی میں نے ان کو اپنا دایاں ہاتھ بایاں ہاتھ پر رکھتے دیکھا ہے۔

اس روایت میں ربما ’’کبھی‘‘ کا لفظ قابل توجہ ہے کہ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے طویل قیام کی وجہ سے جہاں پاؤں میں ورم آجاتا تھا، کبھی ہاتھوں میں تھکاوٹ محسوس ہوتی ہو اس لیے ربما ’’کبھی‘‘ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر تھکاوٹ دور کرنا چاہتے ہوں۔

چنانچہ امام مالک کہتے ہیں:

العزیمۃ فی الارسال والرخصۃ فی الوضع الاخذ لان النبی علیہ السلام کان یفعل کذلک وکذا الصحابۃ حتی نزل الدم علی رؤس اصابعہم ۔ ( عینی شرح کنز الدقائق حاشیۃ نمبر۱ صفحہ۷۸ طبع نول کشور )

ہاتھ کھولنا فرض اور باندھنا جائز ہے چونکہ نبی علیہ السلام اور اصحاب ایسا ہی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ کی پوروں میں خون اتر جاتا تھا۔ لوگوں نے اس عمل کو دیکھ کر یہ سمجھا ہو کہ ایسا کرنا مستحب ہے۔

یہ کام اگر مستحب ہوتا تو اس پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار نہیں، ہمیشہ عمل فرماتے۔

ابن عباس کہتے ہیں: اگر رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی نماز دیکھنا ہو تو ابن زبیر کی نماز کی طرح پڑھو۔ (ابن زبیر ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے ملاحظہ ہو مسند احمد صفحہ ۱۱۹۔ مسند عبد اللہ بن عباس نمبر ۷۲۳۰۸۔ سنن ابی داؤد )

ان روایات کے علاوہ باقی روایات بلحاظ سند قابل اعتنا نہیں ہیں لہٰذا شیعہ امامیہ، زیدیہ اور مالکیہ کا موقف صحیح ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا مستحب نہیں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بحوث فقھیۃ۔ السید محمد رضا سیستانی دام عزّہ ۔

بیان احکام میں اختلاف کیسے ہوتا ہے: امت مسلمہ میں جب کسی مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے تو یہ اختلاف زمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد واقع ہوا ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصحاب شریعت کے تمام احکام پر عبور نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہؐ کو کبھی کسی حالت میں دیکھ لیا، اسے آگے نقل کر دیا۔چنانچہ مسح علی الخفین کے مسئلہ پر حضرت علی علیہ السلام نے عہد حضرت عمر میں اختلاف کیا تو لوگوں نے کہا: ہم نے خود رسول اللہؐ کو خفین (موزوں) پر مسح کرتے دیکھا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: سورہ مائدۃ کے نزول سے پہلے یا بعد میں ؟ کہا: یہ ہم نہیں جانتے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

وَلَکِنْ اَدْرِی اَنَّ النَّبِیَّ تَرَکَ الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ حِیْنَ نَزَلَتِ الْمَائِدَۃُ ۔ (مستدرک الوسائل ۱: ۳۳۳)

میں جانتا ہوں۔ جب سورۃ المائدۃ نازل ہوئی رسول خداؐ نے موزوں پر مسح کرنا چھوڑ دیا تھا۔

اسی طرح یہاں بھی ہوا کہ کسی صحابی نے رسول اللہؐ کو نماز میں کبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھ لیا تو اس بات کو آگے چلا دیا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اس عمل کی وجہ وقوع کیا ہے؟ تھکاوٹ کی وجہ سے ہے یا سنت کی وجہ سے۔ چنانچہ ابن حزم نے اپنی کتاب المحلی جلد۴ صفحہ ۱۱۳ میں لکھا ہے:

حضرت علی علیہ السلام جب نمازمیں دیر تک قیام کرتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں کی کلائی سے بالا، علی زراعہ الیسری ، پر رکھتے تھے۔

یعنی دیر تک نماز میں کھڑے رہنے کی وجہ سے ہاتھوں کی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی زراع پر رکھ دیا۔ اگر یہ عمل سنت رسولؐ ہوتا تو حضرت علی علیہ السلام اسے ترک نہ کرتے، ہمیشہ بجا لاتے، نہ صرف قیام لمبا ہونے کی صورت میں۔ اس جگہ حضرت علی علیہ السلام کے ایک اہم فرمان کا خلاصہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں :

سلیم بن قیس الہلالی کہتے ہیں:

میں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا : میں سلمان، مقداد اور ابوذر سے تفسیر قرآن اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق کچھ باتیں سنتا ہوں۔ پھر آپ ان کی تصدیق فرماتے ہیں۔ جب کہ دیگر لوگوں کے پاس بہت ساری باتیں اس کے خلاف ہیں ، آپ ان کو باطل قرار دیتے ہیں۔ کیا لوگ جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت دیتے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تم نے پوچھا ہے ،اس کا جواب سن لو: لوگوں کے پاس حق کے ساتھ باطل بھی ہے۔ سچ بھی ہے جھوٹ بھی ہے۔ ناسخ بھی ہے منسوخ بھی ہے۔ عام بھی ہے خاص بھی ہے۔ محکم بھی ہے متشابہ بھی ہے۔ محفوظ بھی ہے موہوم بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ہی ان کی طرف جھوٹی نسبت شروع ہو گئی تھی تو آپؐ نے فرمایا: ایہا الناس قد کثر علیّ الکذابۃ فمن کذب عَلیّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ النار ۔ لوگو! مجھ پر کثرت سے جھوٹ بولنے والے ہو گئے ہیں۔ جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے، وہ جہنم کو اپنا ٹھکانا بنائے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی ان پر جھوٹ بولا گیا۔ تمہارے پاس چار قسم کے لوگوں کی طرف سے احادیث آ جاتی ہیں۔ پہلا شخص وہ ہے جو منافق ہے۔ اسے رسول اللہؐ کی طرف جھوٹی نسبت دینے میں کوئی تأمل نہ ہو گا۔ اگر لوگ جانتے یہ منافق ہے تو اس سے حدیث نہ لیتے لیکن لوگوں نے اس سے حدیث اس لیے لی کہ یہ رسولؐ کا صحابی ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث سن لی مگر بات درست طریقے سے نہ سمجھا کچھ اور خیال میں آیا۔ اس نے جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا۔ اگر لوگوں کو علم ہو جاتا کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے تو اس سے حدیث نہ لیتے۔ تیسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بات کا حکم دیتے ہوئے سنا بعد میں اس سے منع کرتے نہیں سنا یا منع کرتے ہوئے سنا، حکم دیتے ہوئے نہیں سنا۔ اس نے منسوخ کو سنا اور ناسخ کو نہیں سنا۔ اگر لوگوں کو علم ہو جاتا یہ حکم منسوخ ہے تو یہ حدیث اس سے نہ لیتے۔ چوتھا شخص وہ ہے جس نے نہ جھوٹ بولا، نہ سمجھنے میں غلطی کی اور ناسخ اور منسوخ کا علم بھی رکھتا ہے چونکہ حدیث نبوی قرآن کی طرح ہے جس میں ناسخ منسوخ، عام خاص اور محکم متشابہ ہیں۔ ( الکافی ۱: ۶۲ باب اختلاف الحدیث )

نماز میں ہاتھ باندھنا کب اور کہاں شروع ہوا: تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کی رسم دوسری صدی ہجری میں شام میں، فقیہ شام اوزاعی کے زمانے میں رائج ہوئی۔ چنانچہ حافظ عبدالرحمن بن عمرو النصری المتوفی ۲۸۱ھ کتاب تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی صفحہ ۳۱۹ میں لکھتے ہیں :

حدثنی عبدالرحمن بن ابراہیم عن عبداللّٰہ بن یحییٰ المعافری عن حیوۃ عن بکر بن عمرو انہ لَمْ یر ابا اُمامۃ یعنی ابن سہل واضعا احدی یدیہ علی الاخری قط ولا احداً من اھل المدینۃ حتی قدم الشام فرأی الاوزاعی واناساً یضعونہ ۔

مجھے عبد اللّٰہ بن ابراہیم نے بتایا، انہوں نے عبد اللّٰہ بن یحییٰ معافری سے انہوں نے حیوۃ سے انہوں نے بکر بن عمرو سے سنا کہ انہوں نے یعنی بکر بن عمرو (فقیہ مدینہ) نے ابو امامہ یعنی ابن سہل اور کسی اہل مدینہ کو (نماز میں ) ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کبھی بھی نہیں دیکھا۔ جب شام پہنچا تو یہاں اوزاعی (فقیہ شام) اور ان کے چند پیروکاروں کوہاتھ باندھتے دیکھا۔

نیز ملاحظہ ہو: تہذیب تاریخ دمشق لابن عساکر جلد۳ صفحہ۲۹۰ ترجمہ بکر بن عمرو المعافری المصری طبع احیاء التراث العربی بیروت۔ تاریخ دمشق ۱۰: ۲۹۷ط دار الفکر بیروت ۔

واضح رہے فقیہ مدینہ ابواُمامہ بن سہل بن حنیف انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۰۰ ہجری میں وفات پائی۔ لہٰذا پہلی صدی ہجری میں ہاتھ باندھنے کی رسم کہیں بھی رائج نہ تھی۔ البتہ دوسری صدی ہجری میں فقیہ شام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی جو ۸۸ھ؁ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۱۵۷ھ؁ میں وفات پائی، کے زمانے میں ہاتھ باندھنے کا رواج شروع ہوا اور مذکورہ عبارت میں واناسا سے معلوم ہوتا ہے کہ شام میں بھی چند لوگ اوزاعی کے ساتھ ہاتھ باندھتے تھے۔ تاریخ دمشق میں عبارت اس طرح ہے: واناساً مَعَہ یضعون ایدیھم ۔

ضیاع نماز: ابھی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں پھر بھی وہ فضا ہی بدل گئی جو عہد رسالت میں موجود تھی۔ خادم رسولؐ حضرت انس سے سنیے اس بارے میں ایک عینی شاہد کے طور پر کیا کہتے ہیں :

عن انس قال: ما اعرف شیئاً مما کان علی عہد النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ قیل الصلوۃ قال: الیس صنعتم ما صنعتم فیہا ۔

حضرت انس سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا: عہد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو کچھ موجود تھا ان میں سے میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ کسی نے کہا: نماز تو ہے نا۔ کہا: کیا تم نے نماز میں بھی وہ کچھ نہیں کیا جو تم نے کیا۔

دوسرے نسخے میں ہے:

ضیعتم ما ضیعتم فیہا ۔

کیا تم نے نماز میں بھی جو کچھ ضائع کرنا تھا، ضائع نہیں کیا؟

عبد العزیز کا بھائی عثمان بن ابی ردّاد راوی ہے کہ میں نے زُھری کو یہ کہتے سنا: میں دمشق میں حضرت انس بن مالک کے ہاں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے۔ میں نے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا:

لا اعرف شیئا مما ادرکت الاھذہ الصلوۃ وھذہ الصلوۃ قد ضُیّعت ۔

میں نے جو کچھ (عہد نبی میں) پایا ان میں سے کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی سوائے اس ایک نماز کے اور اس نماز کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔

ملاحظہ ہو: صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب تضییع الصلوۃ ۔

اہم نکات

۱۔ قرآن نے نماز ظہر و عصر کے لیے دلوک الشمس اور مغرب و عشا کے لیے غَسَقِ الَّیۡلِ سے ہر دو نمازوں کے لیے ایک تعبیر اختیار فرمائی ہے۔

۲۔ مؤمن کو چاہیے کہ صبح کی نماز فرشتہ ہائے شب و روز کے سامنے بجا لائے۔


آیت 78