آیت 60
 

وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور (اے رسول وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قرار دیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے۔

اس آیت کے ذیل میں چند ایک مباحث قابل توجہ ہیں:

۱۔ الرُّءۡیَا: قرآن مجید میں تین مقامات میں لفظ الرُّءۡیَا آیا ہے: سورۃ الصافات آیت ۱۰۵ میں حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کا حضرت ابراہیمؑ کا خواب: قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۔۔۔۔ دوسری جگہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب: لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ ۔ (۴۸ الفتح: ۲۷) تیسری جگہ زیر بحث آیت: الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ ۔۔۔۔ قابل توجہ اور تعجب یہ ہے کہ غیر شیعہ علماء نے ان تین آیات میں سے پہلی دو آیات میں الرُّءْيَا کے معنی خواب لیے ہیں جب کہ زیر بحث آیت میں الرُّءْيَا کے معنی مشاہدہ لیتے ہیں تاکہ اس خواب کی تشریح میں جو احادیث کئی طرق سے بنی امیہ کے بارے میں وارد ہیں ان کی زد میں بنی امیہ نہ آئے۔ اس لیے آیت کی اپنی خواہش کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔

پھر کہتے ہیں : جب الرُّءۡیَا رؤیت (مشاہدہ) کے معنوں میں استعمال ہوا تو آیت میں الرُّءۡیَا سے مراد معراج کے مشاہدات ہیں۔ جب کہ معراج کے بارے میں قرآن کی تعبیر رَاٰى ہے الرُّءۡیَا نہیں۔ ملاحظہ ہو لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی﴿﴾ ۔ (۵۳ النجم: ۱۸)

اہل لغت کی بھی اس پر صراحت موجود ہے کہ الرُّءۡیَا خواب کے معنوں میں ہے۔ قاموس اور لسان العرب میں آیا ہے: الرؤیا ما رأیتہ فی منامک ۔ رؤیا اسے کہتے ہیں جو آپ کو خواب میں نظر آئے۔

راغب المفردات میں لکھتے ہیں : الرؤیا ما یری فی المنام ۔ رؤیا ، جو خواب میں نظر آتا ہے اسے کہتے ہیں۔ نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر رؤیا بمعنی رؤیت (مشاہدہ) ہے تو آیت کی ترکیب اس طرح بن جاتی ہے: الرؤیۃ الّتی اریناک ۔ وہ رؤیت (دیکھنا) جو ہم نے آپ دکھایا ہے۔ اس طرح رؤیت، مرئی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ترکیب نہایت ناقابل قبول ہے کہ اللہ نے دیکھنا دکھایا ہے۔ کچھ لوگ اس خیال کو اختیار کرنے میں خفت محسوس نہیں کرتے: مشرکین چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کو خواب سمجھتے تھے اس لیے اللہ نے بھی اس نظریے کا لحاظ کرتے ہوئے معراج کو خواب کہا ہے۔ (روح المعانی ۱۵: ۱۰۵)

اس افتراء کے ساتھ یہ روایت بھی نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ اور معاویہ کے نزدیک معراج بیداری میں ہوئی ہے۔ دوسرا نظریہ یہ پیش کرتے ہیں کہ رؤیا کے معنی خواب ہیں لیکن اس خواب سے مراد سال حدیبیہ کا خواب ہے۔ اس نظریے میں دو باتیں قابل ملاحظہ ہیں: اول یہ کہ یہ سورۃ مکی ہے اور سال حدیبیہ چھ ہجری کا واقعہ ہے۔ دوم یہ کہ اس میں دو باتیں مورد امتحان و آزمائش ہیں۔ ایک خواب، دوسری شجرہ ملعونہ ۔ حدیبیہ میں خواب تو ہے مگر یہاں شجرہ معلونہ کی کوئی توجیہ نہیں ہے۔

وَ الشَّجَرَۃَ: شجرہ کے معنی درخت کے ہیں جس کی جڑیں اور شاخیں ہوتی ہیں۔ سلسلۂ نسب کو بھی شجرۃ کہتے ہیں جو پشت در پشت باتی رہتا ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں آیا ہے:

یقال: فلان من شجرۃ مبارکۃ ای من اصل مبارک ۔

کہا جاتا ہے: فلاں کا تعلق ایک مبارک شجرہ یعنی مبارک نسل سے۔

یہاں بھی ایک تفسیر بالرای یہ ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد شجرہ زقوم ہے جو جہنم میں ہے حالانکہ اللہ نے قرآن میں شجرہ زقوم پر لعنت بھیجی ہے نہ آتش جہنم پر اور نہ جہنم کے دربانوں پر۔

لعنت۔ اللعن: کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کر نا، دھتکار دینا ہے۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی رحمت اور توفیق سے محروم ہو جائے اور آخرت میں عقوبت کا مستحق قرار پائے۔(مفرادات راغب)

جن پر خدا و رسولؐ کی لعنت ثابت ہے ان کے ہمدرد لوگوں نے یہ حدیث بنا ڈالی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

اللّٰھم۔۔۔ ایما مؤمن اذیتہ اوسببتہ او لعنتہ فاجعلھا لہ کفارۃ و قربۃ تقربہ بھا ۔ ( صحیح بخاری کتاب الدعوات، صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ )

اے اللہ جس مؤمن کو میں اذیت دوں یا اسے (معاذ اللہ) گالی دوں یا اس پر لعنت کروں اسے اس کے لیے کفارہ اور اپنی قربت کا ذریعے بنا دے۔

اس کا مطلب یہ ہوا جس پر خدا و رسول جس قدر لعنت بھیجیں اسی قدر وہ دھتکارنے کی جگہ زیادہ مقرب درگاہ ہو گا۔ جب کہ وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی کی زبان سے جس پر لعنت ہو جائے اس پر اللہ کی طرف سے بھی لعنت ہے اور جس پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو اس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:

وَ مَنۡ یَّلۡعَنِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا (۴ نساء: ۵۲)

اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔

جب کہ یہ حضرات کہتے ہیں خود لعنت مددگار اور باعث قربت ہے۔

یہ سب بے دلیل خیالات اس دلیل کے مقابلے میں پیش کیے جاتے ہیں جو مستند مصادر سے ثابت ہے کہ الرُّءۡیَا سے مراد وہ خواب ہے جو حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ بنی امیہ بندر کی طرح آپؐ کے منبر پر اچھل کود کر رہے ہیں جس کے بعد آپ بہت کم ہنسے۔

سہل بن سعد راوی ہیں :

رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی امیہ ینزون علی منبرہ نزوالقردۃ فساءہ ذلک فما استجمع ضاحکا حتی مات وانزل اللّٰہ تعالیٰ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ ۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل کود کر رہے ہیں۔ آپ کو اس سے دکھ ہوا۔ جس کے بعد آپ کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ ۔۔۔۔

چنانچہ ابن عباسؓ، سہل بن سعدؓ، سعید بن مسیبؓ، یعلی بن مرہؓ، ابن عمروؓ، ابو ہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں۔ ملاحظہ ہو مستدرک حاکم ۴:۴۸، اسد الغابۃ ۳:۱۴، الخصائص الکبری ۲:۱۱۸، تفسیر طبری، قرطبی، شوکانی، الدرالمنثور، تاریخ طبری وغیرہ۔

حضرت عائشہ ؓنے ایک بار مروان سے فرمایا:

لعن اللہ أباک و انت فی صلبہ فانت بعض من لعنة اللہ

اے مروان! اللہ نے تیرے باپ پر اس وقت لعنت بھیجی جب تو اس کی صلب میں تھا۔ لہٰذا تو بھی اس لعنت میں شامل ہے۔

ملاحظہ ہو تفسیر فخر رازی ذیل آیت۔

حضرت جبیر بن مطعم راوی ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو حکم بن ابی العاص کو دیکھا تو نبیؐ نے فرمایا:

ویل لِأمُتَّی مما فی صلب ھذا ۔ ( اسدالغابۃ ۱: ۵۱۴)

اس شخص کے صلب میں جو موجود ہے اس سے میری امت کے لیے تباہی ہے۔

ابو سعید خدریؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان اہل بیتی سیلقون من بعدی من امتی قتلا و تشریداً وان اشد قوماً لنا بغضا بنو امیہ و بنو المغیرہ و بنو مخزوم ۔ ( کنز العمال حدیث نمبر ۳۱۰۷۴)

میرے بعد میرے اہل بیت کو قتل اور جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے خلاف سب سے زیادہ بغض رکھنے والے بنی امیہ، بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہوں گے۔

بزرگ صحابی حضرت ابو برزہ ؓ کہتے ہیں:

کان ابغض الاحیاء او الناس الی رسول اﷲ بنو امیۃ ۔ (مستدرک الحاکم ۴: ۴۸۰ اور کہا: سند صحیح ہے۔ ھیثمی نے مجمع الزواید ۶: ۷۱ میں کہا ہے : رجالہ رجال الصحیح )

لوگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سب سے زیادہ مبغوض ترین بنی امیہ ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لکل امۃ آفۃ و آفۃ ھذہ الامۃ بنو امیۃ ۔ ( کنز العمال ۶: ۹۱)

ہر امت کو ایک آفت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس امت کی آفت بنی امیہ ہیں۔

وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ: قرآن میں جن سلسلوں کو لعنت کا نشانہ بنایا ہے وہ تین ہیں : اہل کتاب، مشرکین اور منافقین۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب میں جس ملعون سلسلے کو مسلمانوں کے لیے آزمائش قرار دیا گیا ہے وہ اہل کتاب اور مشرکین نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ دونوں اسلام کے کھلے دشمن ہیں اور جن کی دشمنی کھلی ہوئی ہے وہ آزمائش نہیں ہوتے۔ آزمائش وہ ہوتے ہیں جو حق کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی منافقین۔

چنانچہ قرآن نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والوں ، فساد فی الارض اور قطع رحم کرنے والوں پر لعنت کی ہے۔

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والوں کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۔۔۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۷)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے۔

فساد اور قطع رحمی کے بارے میں فرمایا:

فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ﴿﴾ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ﴿﴾ (۴۷ محمد: ۲۲، ۲۳)

پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ پھیر لیا تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

چنانچہ یہ مفسدین اس قدر اندھے ہو گئے تھے کہ اسی شجرہ ملعونہ کی ایک کڑی حجاج نے کہا تھا:

من قال لی اتق اﷲ ضربت عنقہ ۔ (تفسیر المنار)

اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اللہ کا خوف کرو، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔

بنی امیہ کی سیاہ تاریخ، ملت اسلامیہ کے لیے کس قدر سنگین آزمائش ہے یہ بات تاریخ کا ادنیٰ مطالعہ رکھنے والے پر بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

چنانچہ آلوسی روح المعانی میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :

بنی امیہ مراد ہونے کی صورت میں نُخَوِّفُہُمۡ کی ضمیر بنی امیہ کی طرف، ان کی اولاد اور شجرہ ہونے کے اعتبار سے جاتی ہے۔ بنی امیہ پر لعنت اس لیے ہوئی ہے کہ ان کے ہاتھوں بہت ناحق خون بہ گئے اور بہت سی عصمتیں لٹ گئیں۔ لوگوں کے اموال کو ناحق تاراج کیا، بہت سے حقوق کو پامال کیا، احکام میں تبدیلیاں کیں اور اللہ نے اپنے رسول پر جو احکام نازل کیے ان کے خلاف فیصلے صادر کیے۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی سیاہ کاریوں اور بڑی رسوائیوں کا ارتکاب کیا گیا جو رہتی دنیا تک ناقابل فراموش ہیں۔

بنی امیہ کے یہ مظالم، ان کی سیاہ کاریاں اور اس غیر قانونی حکومت کی طرف سے ہونے والی قتل وغارت ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم آزمائش تھی کہ راسخ الایمان ان مظالم پر صبر اور ان میں شریک ہونے سے اجتناب کرتے ہیں جس سے ان کے ایمان کی سچائی ثابت ہوتی ہے جب کہ ضعیف الایمان والوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف قیام کرنا تو درکنار خود اس میں شریک ہو جاتے ہیں جس سے ان کے ایمان کی کمزوری ثابت ہو جاتی ہے۔

چنانچہ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

وَ اِنۡ اَدۡرِیۡ لَعَلَّہٗ فِتۡنَۃٌ لَّکُمۡ وَ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿﴾ (۲۱ الانبیاء: ۱۱۱)

اور میں نہیں جانتا شاید اس (عذاب کی تاخیر) میں تمہاری آزمائش ہے اور ایک مدت تک سامان زیست ہے۔

اہم نکات

۱۔ ظالم حکمران، امت کے لیے آزمائش ہیں۔

۲۔ قرآن کے دقیق مطالعہ سے اس شجرہ ملعونہ کا چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔

۳۔ تنبیہ و نصیحت کی صورت میں شجرہ ملعونہ کی بغاوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


آیت 60