آیت 59
 

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنۡ نُّرۡسِلَ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنۡ کَذَّبَ بِہَا الۡاَوَّلُوۡنَ ؕ وَ اٰتَیۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَۃَ مُبۡصِرَۃً فَظَلَمُوۡا بِہَا ؕ وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور نشانیاں بھیجنے سے ہمارے لیے کوئی مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس سے پہلے کے لوگوں نے اسے جھٹلایا ہے اور (مثلاً) ثمود کو ہم نے اونٹنی کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو نبوت کے اثبات کے لیے معجزہ کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے۔ اس ابتدائی معجزے کو قبول نہ کرنے کی صورت میں مہلت مل جاتی ہے فوری عذاب نہیں آتا لیکن اگر لوگوں کے مطالبے پر معجزہ دکھایا جائے اور پھر اس معجزے کا انکار کریں تو اس صورت میں فوری عذاب آجاتا ہے۔

کفار کی طرف سے تجویز شدہ معجزہ اس وقت دکھایا جاتا ہے جب ان کو انکار کی صورت میں تباہ کرنا مقصود ہو۔ مکہ کے کفار کی طرف سے معجزے کا مطالبہ درحقیقت اپنی تباہی کا مطالبہ تھا۔ جیسا کہ قوم ثمود کو ناقہ کا معجزہ دکھا کر تباہ کر دیا گیا۔ جب کہ مشیت الٰہی یہ رہی ہے کہ کفار مکہ کو مہلت دی جائے۔ چونکہ مشیت الٰہی کی نگاہ آنے والی نسلوں پر ہوتی ہے کہ اگر ان کی آنے والی نسلوں میں اہل ایمان ہیں تو ان کفار کو تباہ نہیں کیا جاتا اور اگر آنے والی نسلوں میں اہل ایمان نہیں ہیں تو اس صورت میں ان پر تباہی آجاتی ہے جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی تباہی کے مطالبہ میں فرمایا:

اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا﴿﴾ (۷۱ نوح: ۲۷)

اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو وہ یقینا تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور یہ لوگ صرف بدکار کافر اولاد ہی پیدا کریں گے۔

۲۔ وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا: معجزے کی ایک قسم تخویفی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں کو خوف و ہراس، کم مال و دولت اور قحط میں مبتلا کر کے کم سے کم عذاب دیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورہ نحل آیت ۴۷ میں فرمایا:

اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ عَلٰی تَخَوُّفٍ ؕ فَاِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿﴾

یا انہیں خوف میں رکھ کر گرفت میں لیا جائے؟ پس تمہارا رب یقینا بڑا شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

اس آیت میں تخویف کے ذکر کے بعد یہ فرمایا: ’’تمہارا رب بڑا شفقت والا مہربان ہے۔ ‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی شفقت ہے کہ کم سے کم سزا، تخویف کی سزا ہے ممکن ہے وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا کا تعلق امت محمدی سے ہو کہ اس امت پر شفقت اور مہربانی فرما کر صرف تخویفی عذاب نازل فرماتا ہے جو کم سے کم عذاب ہے۔ چنانچہ سورۃ الانعام آیت ۶۵ میں بھی کمترین عذاب کے بارے میں فرمایا:

اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ۔۔۔۔

یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ آنے والی نسلوں کی وجہ سے موجودہ نسل کو امان مل جاتی ہے۔

۲۔ کفار کا مطالبہ معجزہ، درحقیقت اپنی تباہی کا مطالبہ تھا۔


آیت 59