آیت 58
 

وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ: کوئی بستی ایسی نہ ہو گی جو اللہ کے عادلانہ قانون مکافات کی زد میں نہ آئے اور وہ ہلاکت یا عذاب شدید کی صورت میں وقوع پذیر ہو گا۔ ہلاکت کو عذاب کے مقابلے میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہلاکت سے مراد طبیعی موت ہے۔ وہ ہلاکت نہیں جو عذاب کی صورت میں آتی ہے۔ اسی لیے بعض کی یہ رائے ہے کہ ہلاکت (طبیعی موت) اچھی بستیوں کے لیے ہے اور عذاب بری بستیوں کے لیے لیکن ہو سکتا ہے ہلاکت اور عذاب، مکافات عمل کی دو صورتیں ہوں۔

قیام قیامت سے پہلے لوگوں کے فسق و فجور یا حد سے بڑھ کر عیش و نوش کی وجہ سے بغاوت اور سرکشی کے سبب ساری آبادیاں تباہ ہو جائیں گی۔ کچھ کو ہلاکت یعنی قوم لوط کی طرح تباہ کر کے اور کچھ کو قحطی، وباء کی بیماری اور جنگ وغیرہ کے ذریعے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

۲۔ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا: اس عالم ہستی کو اللہ تعالیٰ نے جس قانون اور دستورپر قائم کر رکھا ہے، اسے کبھی ’’لوح محفوظ ‘‘ کبھی ’’کتاب مبین‘‘ کہا ہے۔ اس کائنات میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اس قانون اور اس تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جس پر اس کائنات کا نظام قائم ہے۔ جو اللہ کے اس حتمی فیصلے سے عبارت ہے کہ ہر علت پر معلول کا مترتب ہونا ضروری ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہر بستی کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۲۔ اللہ کا حتمی فیصلہ کتاب مبین ہے۔


آیت 58