آیت 53
 

وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور میرے بندوں سے کہدیجئے: وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

تفسیر آیات

روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے جو مشرکین کی طرف سے تمسخر سننے پر بدکلامی کرتے تھے۔ آیت کے اطلاق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہر وقت، ہر موقع پر اور ہر شخص سے وہ بات کریں جو بہترین ہو۔ جو اس عظیم دعوت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو۔ جو اس پاکیزہ فکر کو نمودار کرے۔ جو ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کی نمائندگی کرے، جس سے ان اقدار کی خوشبو پھیلے جو اس دعوت میں ہے۔ ایسی باتیں جو گرد و پیش کو معطر کریں۔ جو قلب و نظر پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

رُبَّ قَوْلٍ اَنْفَذْ مِنْ صَولٍ ۔ ( نہج البلاغۃ۔ تشریح طلب کلام : ۳۹۴)

کبھی ایک جملہ ایک حملے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ: جب فہم و فراست سے عاری شخص کسی کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتا ہے تو کمین میں بیٹھا ہوا شیطان اس پر اپنا تیر چلاتا اور اسے مزید اکساتا ہے تاکہ دعوت الی الحق میں حق کی چاشنی باقی نہ رہے بلکہ اس دعوت دینے والے اور اس کے مذہب کے بارے میں بُغض و عناد وجود میں آئے پھر اصلاح کی جگہ فساد و فتنہ برپا ہو جائے۔

ایسا بہت ہوا ہے کہ ایک جملے نے لوگوں پر وہ مثبت اثر دکھایا جو کسی طاقت کے ذریعے نہیں ہو سکتا تھا اور کبھی ایک نامناسب جملے نے وہ فساد اور خون ریزی کو جنم دیا جو کسی جانی دشمن سے نہیں ہو سکتی تھی۔ خوش گفتاری کا اپنا اثر ہے۔ ایک مناسب اور برمحل جملہ انسان کی تقدیر بدل دیتا ہے اور ایک نامناسب جملہ ایک بہت بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

چنانچہ ہماری مجالس و محافل کے بعض غیر ذمے دار افراد نے شہید انسانیتؑ کے منبر سے انسانوں کی دل آزاری کر کے اس مکتب کو وہ نقصان پہنچایا جو دنیا کے کسی دشمن کے بس میں نہ تھا۔

اہم نکات

۱۔ دعوت میں خوش گفتاری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

۲۔ شیطان گفتار کے ذریعہ فساد پھیلاتا ہے۔


آیت 53