آیت 52
 

یَوۡمَ یَدۡعُوۡکُمۡ فَتَسۡتَجِیۡبُوۡنَ بِحَمۡدِہٖ وَ تَظُنُّوۡنَ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی ثناء کرتے ہوئے تعمیل کرو گے اور (اس وقت)تمہارا یہ گمان ہو گا کہ تم (دنیا میں) تھوڑی دیر رہ چکے ہو۔

تفسیر آیات

منکرین معاد سے خطاب ہے : منکرو! جب قیامت کے دن تمہیں قبروں سے اٹھنے کا حکم ملے گا اس وقت تمہارے پاس سوائے حمد و ستائش الٰہی کے کوئی جواب نہ ہو گا اور قیامت کی ابدی زندگی کو سامنے دیکھ کر دنیاوی زندگی کو تم نہایت ناچیز سمجھو گے۔

اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا: ممکن ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں ہو اور ممکن ہے برزخی زندگی کے بارے میں ہو۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یُقۡسِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۬ۙ مَا لَبِثُوۡا غَیۡرَ سَاعَۃٍ ۔۔۔۔ (۳۰ روم: ۵۵)

اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد برزخی زندگی ہے کیونکہ اس قسم کے جواب میں اہل علم و ایمان کہیں گے:

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ ۔۔۔۔ (۳۰ روم: ۵۶)

اور جنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ یہ لوگ قیامت تک دنیا میں زندہ نہ رہے بلکہ برزخ میں رہے۔

اس آیت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ حیات برزخی سب کے لیے ہے جبکہ عام طور پر حیات برزخی صرف قبر میں نکیرین کے سوال تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ البتہ شہداء اور بڑے مجرموں کے لیے حیات برزخی ثابت ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن کافر بھی حمد الٰہی کریں گے: فَتَسۡتَجِیۡبُوۡنَ بِحَمۡدِہٖ ۔


آیت 52