آیات 45 - 46
 

وَ اِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ جَعَلۡنَا بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسۡتُوۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔

وَّ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِذَا ذَکَرۡتَ رَبَّکَ فِی الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَہٗ وَلَّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ نُفُوۡرًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور ہم ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں سنگینی کر دیتے ہیں اور جب آپ قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے اپنی پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔

شان نزول: یہ آیت مکہ کے ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو تلاوت قرآن اور خانہ کعبہ کے پاس نماز ادا فرماتے تو وہ انہیں اذیت دیتے، پتھر مارتے اور اسلام کی طرف لوگوں کو دعوت دینے میں حائل ہوتے تھے لیکن اللہ نے کرم فرمایا اور تلاوت قرآن کے وقت وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں دے سکتے تھے۔ ( مجمع البیان ذیل آیہ)

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ آیت اس بات کو واضح کرنا چاہتی ہے: اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو لوگ ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ جو لوگ آخرت پر، کسی حساب و ثواب پر عقیدہ نہیں رکھتے وہ اسے نہیں سمجھ سکیں گے۔

۲۔ وَّ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً: لوگ اگرچہ ایک جگہ بیٹھے ہوں گے اور آپ کی طرف سے تلاوت قرآن کی آواز کو سن رہے ہوں گے مگر کچھ لوگ ان آیات سے کسب فیض کر رہے ہوں گے اور کچھ لوگوں کے دلوں پر پردہ پڑا ہو گا، وہ حقائق قرآن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔

۳۔ یہ بات ہم نے تکراراً لکھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کافروں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اس بات میں پہل کرتا ہے اور وہ ایمان لانے سے عاجز ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہدایت کے تمام اسباب فراہم اور حجت پوری ہونے کے باوجود وہ کفر اختیار کرتے ہیں تو اللہ ان کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل پر غلاف چڑھ جاتا ہے اور اس کے کان حق سننے کے قابل نہیں رہتے۔

خصوصاً جب قرآن میں صرف خدائے واحد کا ذکر ملتا ہے، اس کے ساتھ ان کے دیویوں ، دیوتاؤں کا ذکر نہیں آتا تو یہ ان کی مشرکانہ طبع پر ناگوار گزرتا ہے۔

۴۔ وَ اِذَا ذَکَرۡتَ رَبَّکَ: اور اگر ان کے معبودوں کے نام لیے بغیر صرف اللہ کا نام لیا جاتا تو نفرت سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۔۔۔۔ (۳۹ الزمر: ۴۵)

اور جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل متنفر ہو جاتے ہیں۔

شرک کی واضح علامت یہی ہے کہ صرف اللہ کا نام سننے سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے لیے صرف اللہ کا ذکر ہی ناپسندیدہ گفتگو ہے۔ ایسے لوگ اس قسم کی محفلوں میں بیٹھنا گوارا نہیں کرتے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان بہ آخرت قرآن کا بنیادی پیغام ہے۔

۲۔ آخرت کا منکر قوت شناخت سے محروم ہو جاتا ہے۔

۳۔ ذکر خدا کا ناگوار گزرنا مشرک ہونے کی علامت ہے۔


آیات 45 - 46