آیت 44
 

تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا﴿۴۴﴾

۴۴۔ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثناء میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، اللہ یقینا نہایت بردبار، معاف کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تُسَبِّحُ لَہُ: تسبیح، تنزیہ الٰہی بیان کرنے کو کہتے ہیں کہ اس کی ذات ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ اللہ کی تنزیہ و تسبیح کائنات کی ہر چیز کرتی ہے۔ تسبیح چونکہ قصداً تنزیہ کرنے کو کہتے ہیں اس لیے اس آیت اور دوسری بہت سی آیات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز میں شعور موجود ہے۔ البتہ موجودات میں سے ہر ایک میں اپنے درجہ وجود کے مطابق شعور موجود ہے۔ انسان، فرشتے، جن، حیوانات، نباتات اور جمادات میں سے ہر ایک اپنے درجہ وجود کے مطابق شعور رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن ہد ہد اور چیونٹی کے شعور اورشہد کی مکھی پر وحی نازل کرنے کا ذکر کرتا ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت ۷۹ میں پہاڑوں پر امانت پیش کرنے کا ذکر ہے۔ سورہ سبا آیت ۱۰ میں تو پہاڑوں کو حکم ملتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ سورہ بقرہ آیت ۷۴ میں چٹانوں میں موجود خوف خدا کا ذکر ملتا ہے۔انسانوں اور دیگر موجودات میں درجہ وجود و شعور میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے انسان اس شعور کا ادراک نہیں کر سکتا جو اپنے سے مختلف درجہ میں ہوتا ہے۔

۲۔ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ: انسان اپنے سے مختلف موجودات کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے جیسے ان میں موجود شعور کو نہیں سمجھتے۔

ہر شیء کی تسبیح سے مراد زبان حال لینا کہ ہر مخلوق خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے، یہی ان کی تسبیح ہے۔ صریحاً آیت کے خلاف ہے کہ قرآن کہے ان کی تسبیح کو تم سمجھتے نہیں اور ہم کہیں: ہم نے سمجھ لیا ہے، وہ زبان حال ہے۔


آیت 44