آیات 42 - 43
 

قُلۡ لَّوۡ کَانَ مَعَہٗۤ اٰلِـہَۃٌ کَمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذًا لَّابۡتَغَوۡا اِلٰی ذِی الۡعَرۡشِ سَبِیۡلًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ کہدیجئے: اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہ رہے ہیں تو وہ مالک عرش تک پہنچنے کے لیے راستہ تلاش کرتے۔

سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ عُلُوًّا کَبِیۡرًا﴿۴۳﴾

۴۳۔ پاکیزہ اور بالاتر ہے وہ ان باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ لَّوۡ کَانَ مَعَہٗۤ اٰلِـہَۃٌ: توحید پر ایک بیّن دلیل کا ذکر ہے: اگر اللہ کے علاوہ معبود ہوتے تو وہ رَبۡ ہونے کی وجہ سے ہوتے۔ مشرکین ان دیوتاؤں کو معبود مانتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی تدبیر حیات میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا معبود کا مطلب مدبّر ہے۔ آیت اس نکتے کو واضح کرنا چاہتی ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور مدبّر ہوتا تو وہ صاحب عرش کے مقابلے میں آنے کی ضرور کوشش کرتا۔ اس کی تدبیر صاحب عرش کی تدبیر سے متصادم ہوتی۔ یہاں اِلٰی ذِی الۡعَرۡشِ اس لیے فرمایا ہے کہ عرش اللہ کے مقام تدبیر کا نام ہے۔ چنانچہ ہم نے عرش کی وضاحت میں بھی یہ بات بیان کی ہے۔

اگر تدبیر کائنات میں دوسرے خداؤں کا بھی دخل ہوتا تو ان خداؤں کے ارادوں کا اللہ کے ارادے کے ساتھ تصادم ہوتا اور نظم کائنات درہم برہم ہو جاتا۔ جب کہ اس کائنات کی تمام موجودات میں ایک ہی قدرت کے نشانات نظر آتے ہیں۔ کائنات کا وحدت نظام اس کے مدبّر کی وحدت کی علامت ہے۔

اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ المؤمنون آیت ۹۱۔ سورۃ الانبیاء آیت ۲۲۔

اہم نکات

۱۔ کائنات میں ہم آہنگی ایک ہی ارادے کی علامت ہے۔

۲۔ اللہ کا عرش سلطنت، ناقابل نزاع ہے۔


آیات 42 - 43