آیات 37 - 38
 

وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلندی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔

کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنۡدَ رَبِّکَ مَکۡرُوۡہًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ ان سب کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔

تفسیر آیات

توُ پانچ سے چھ فٹ کی مخلوق اپنی حد میں رہ۔ تو اپنی محدودیت سے نکل نہیں سکتا، نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے، نہ پہاڑوں سے اونچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک محسوس مثال ہے کہ جس طرح تو زمین کو پھاڑ کر کچھ زمین کو نیچے کر کے اور پہاڑوں کی بلندیوں تک نہیں جا سکتا، جس طرح تیرے مادی وجود کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح تیری شخصیت کا وجود بھی محدود، عاجز، حقیر اور ناتواں ہے۔ جس طرح تو اپنے جسم کے قد و قامت کو بلند نہیں کر سکتا۔ بالکل اسی طرح اپنی شخصیت کا قد اپنی محدودیت سے اونچا نہیں کر سکتا۔

تکبر کرنے والا عموماً اپنی چال میں اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ چنانچہ برد باری کا اظہار بھی چال کے ذریعے ہوتا ہے۔

تکبر ، نفسیاتی اعتبار سے انسان کی شخصیت میں احساس خلا کے تدارک کی ناکام کوشش ہے۔ جس طرح نیم خواندہ شخص اپنا علمی خلا القاب کے ذریعے پر کرنا چاہتا ہے اسی طرح جس کی شخصیت میں خلا ہو وہ اسے پر کرنے کے لیے تکبر اور اپنی چال کے ذریعے بڑائی کا اظہار کرتا ہے۔ تکبر کا تعلق دوسروں سے بھی ہے۔ متکبر، دوسروں کو اپنے سے زیر اور اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا دکھانا چاہتا ہے۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ لوگ تکبر کرنے والوں سے متنفر ہوتے ہیں۔ جس سے باہمی مودت و محبت متاثر ہو جاتی ہے۔

تکبر اجتماعی آداب اور نفسیاتی توازن کے منافی ہے۔ اس لیے متکبر جہاں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے وہاں وہ لوگوں کے نزدیک بھی منفور ہے۔

اہم نکات

۱۔ زمین اور پہاڑ کے مقابلے میں کمزور انسان کو تکبر کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔


آیات 37 - 38