آیات 34 - 36
 

وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جس میں بہتری ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور تم ناپتے وقت پیمانے کو پورا کر کے دو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھو، بھلائی اسی میں ہے اور انجام بھی اسی کا زیادہ بہتر ہے۔

وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے بازپرس ہو گی۔

تشریح کلمات

لا تقف:

( ق ف و ) القفا کسی کے پیچھے پیچھے چلنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ: مال یتیم کے بارے میں سورۃ النسآء آیت نمبر۲ تا ۱۰ میں تفصیل آ گئی ہے۔ یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانے کا مطلب اس پر تصرف ہے۔ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ میں استثناء اس صورت میں ہے کہ یہ تصرف یتیم کے مال کی حفاظت کے لیے ہو۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۲ میں اس کا ذکر آچکا ہے۔ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے اور اپنے مال کا خود تحفظ کرسکے تو مال اس کے حوالے کرنا ہو گا۔

۲۔ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ: اسلامی تعلیمات میں وفا بعہد، معاہدوں کی پابندی کرنا ایک انسانی مسئلہ ہے۔ دوسرا فریق مسلم ہو یا غیر مسلم، ہر صورت میں معاہدہ توڑنا جائز نہیں ہے جب تک دوسرا فریق نہ توڑے۔

۳۔ وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ: ناپ تول میں امانتداری کے معاشرے پر بہت بہتر اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ نوے فیصد تک معاملات خرید و فروخت کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس میں امانتداری سے معاشرے پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور خیانت ہونے کی صورت میں معاشرے کی بنیاد ہل جاتی ہے۔ چنانچہ سورۃ المطففین میں مذکور ہے۔

۴۔ وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ: علم ، واقع کے قطعی انکشاف کو کہتے ہیں۔ کسی امر پر علم نہ ہونے کی صورت میں تین حالتیں ہیں: ظن، شک اور جہل۔ ان تینوں میں زیادہ قرین واقع ظن ہے۔ اس کے باوجود ظن کے بارے میں قرآن کا یہ موقف ہے:

اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۳۶)

ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔۔۔۔

علم چونکہ حقیقت نمائی کرتا ہے لہٰذا ہر حقیقت پسند، علم پسند ہوتا ہے اور جو حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے وہ علم سے کتراتا ہے۔

اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اسلام علم ہی کو دلیل سمجھتا ہے:

i۔ بنیادی عقائد کے لیے ضروری ہے کہ انہیں علمی دلائل سے سمجھا جائے۔ اس طرح اوہام پرستی کا خاتمہ کر دیا گیا۔

ii۔ قضاوت میں فیصلوں کے لیے یا تو علم ہونا ضروری ہے یا ایسی دلیل، جس کے دلیل ہونے پر علم حاصل ہو۔

iii۔ شہادت کے لیے ضروری ہے کہ علم ہو، ظن و تخمین کی بنیاد پر گواہی درست نہیں۔

iv۔ اخلاق میں علم کے بغیر ظن و گمان کی بنیاد پر کسی پر الزام لگانا جائز نہیں۔

v۔ فقہی ابواب میں احکام کا نفاذ علم پر موقوف ہے۔ مثلاً کل شیء لک طاہر حتی تعلم انہ قذر ۔ ہر چیز پاک ہے، اس کی نجاست کا علم حاصل ہونے تک۔ اصالت طہارت ۔ علم میں آنے تک ہر چیز پاک ہے، ایک فقہی کلیہ ہے۔

vi۔ اصول الفقہ میں یہ بات طے ہے کہ دلیل یا علم ہونا چاہیے یا علمی۔ علمی سے مراد وہ دلیل ہے جو بذات خود علم نہیں دیتی لیکن اس کے دلیل ہونے پر علمی دلیل قائم ہے۔ جیسے خبر واحد اور گواہی۔ ان دونوں سے اگرچہ علم و یقین تو حاصل نہیں ہوتا لیکن ان دونوں کے دلیل ہونے پر قطعی علمی دلیل قائم ہے۔

اس طرح اس اسلامی تعلیمات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی میں علم کو ہی بنیاد قرار دیا گیا اور ظن و گمان پر عمل کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ اس طرح ظن و گمان کی پیروی کرنے سے پیدا ہونے والی تمام خرابیوں سے اسلامی معاشرے کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت علم کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانا جائز نہیں ہے۔ غرض اسلامی نظام حیات میں زندگی کے تمام امور میں علم و یقین کے علاوہ ظن و مخمین اور و ہم و گمان کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ علم کسی امر کے حق میں یا خلاف حجت ہے۔ اگر کوئی قدم علم کے بغیر اٹھایا جائے تو اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

۲۔ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ: اگر کوئی عمل یا عقیدہ سننے سے متعلق ہے تو قوت سماعت سے سوال ہو گا کہ کیا علم کے علاوہ ظن و گمان پر تو عمل نہیں کیا۔ اگر یہ عمل یا عقیدہ بصری امور سے متعلق ہے تو قوت بصارت سے سوال ہو گا۔ اگر اس قسم کے نظریے کا قیام، فکر و تعقل سے مربوط ہے تو دل پر سوال آئے گا۔

ان پر سوال اسی لیے ہو گا کیونکہ یہ علم و یقین کے حصول کے ذرائع ہیں اور علم و یقین حاصل ہونے سے پہلے اگر قدم اٹھ گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان ذرائع کا صحیح استعمال نہیں ہوا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلام، صرف علم کو حق تک پہنچنے کا ذریعہ تسلیم کرتا ہے۔

۲۔ علم کے بغیر کسی بات کو تسلیم یاردّ کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔

۳۔ تمام حقوق کی پامالی اور ناانصافیاں ، غیر علم کو بنیاد بنانے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔

۴۔ اکثر کدورتیں ، اختلافات، غلط فیصلے غیر علم پر عمل کرنے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔


آیات 34 - 36