آیت 33
 

وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے تم اسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص کا) اختیار دیا ہے، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، یقینا نصرت اسی کی ہو گی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ: اللہ کی دی ہوئی زندگی کو ناحق ختم کرنا اللہ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ آیت ۳۲ میں

مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔

جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔

اور سورہ نساء آیت ۹۳ میں جان بوجھ کر ایک مؤمن کے قاتل کو دائمی جہنمی قرار دے دیا۔

۲۔ اِلَّا بِالۡحَقِّ: بعض حالات میں قتل، عمومی مصلحت کے تحت جائز ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت قصاص میں مشروحاً ذکر ہو گیا اور دیگر موارد میں جو فقہی کتب میں مذکور ہیں۔

۳۔ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا: جو شخص ناحق اور مظلوم مارا جائے تو اس کے ولی الدم کو قانوناً اختیار حاصل ہے کہ وہ قصاص لے یا دیت لے کر معاف کر دے۔ سُلۡطٰنًا سے مراد یہاں قانونی بالادستی ہے جو مقتول کے خون کے وارث کو حاصل ہے۔ حکومت کو قصاص لینے یا معاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ البتہ وارث حاکم شرع ہی کے ذریعے قصاص لینے کا مجاز ہے، از خود نہیں۔

۴۔ فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ: قتل میں اسراف نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ وارث صرف قاتل سے قصاص لینے کا مجاز ہے، اس کے دیگر عزیزوں سے نہیں۔ ایک کے بدلے صرف ایک قصاص میں مارا جائے گا، زیادہ نہیں۔ جیسا کہ انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے اپنی قوم کے ایک فرد کا قصاص دوسری پوری قوم سے لیتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلام اپنی قانون سازی میں مظلوم کے وارثوں کا حامی ہے: اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا ۔


آیت 33