آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الاسراء

اس سورت کا نام بنی اسرائیل مشہور ہے اور اسے سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں۔

مشہور روایات کے مطابق اس سورہ کی تمام آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں۔ البتہ بعض روایات میں کچھ آیات کے بارے میں آیا ہے کہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔

اس سورہ کی ابتدائی آیت، آیت معراج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ، معراج کے موقع پر نازل ہوا ہے اور یہ بات بھی تقریباً تسلیم شدہ ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل پیش آیا تھا۔ لہٰذا یہ سورہ ہجرت سے ایک سال قبل نازل ہوا ہے۔

اس سورہ کے مضامین مکی مزاج ہیں جو اکثر توحید، نفی شرک اور معاد پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ اس سورہ میں بعض ایسی اخلاقی قدروں کے احیاء کا ذکر ہے جن کو زمان جاہلیت میں پامال کیا جاتا تھا۔ مثلاً زنا، اولاد کشی، احترام والدین اور تکبر سے اجتناب۔ کچھ اقتصادی اصول کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مثلاً فضول خرچی کی ممانعت، اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال کی صورت اختیار کرنے کا حکم اور ناپ تول میں خیانت کی ممانعت۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱﴾

۱۔ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تشریح کلمات

اَسۡرٰی:

( س ر ی ) اَلسُّری کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیت میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے۔ آیت میں مسجد الحرام مکہ سے مسجد اقصیٰ، بیت المقدس تک لے جانے کا ذکر ہے۔ البتہ حدیث میں تواتر کے ساتھ آیا ہے کہ مسجد اقصیٰ سے آپؐ کو معراج پر لے جایا گیا اور ملکوت کی سیر کرائی گئی۔

معراج کی حکمت: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر لے جانے کا مقصد اسی آیت کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ فرمایا: لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبؐ کو اپنی نشانیاں اس طرح دکھانا چاہتا ہے کہ وہ زمین و آسمان میں اللہ کی سلطنت کا اس طرح مشاہدہ کریں کہ ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود کی منزل پر فائز ہو جائیں۔ واضح رہے شہود سے مراد سمعی و بصری ذرائع نہیں ہیں جن میں غلطی کا امکان رہتا ہے کہ سننے میں کانوں اور دیکھنے میں آنکھوں کو غلطی لگ جائے بلکہ اس شہود سے مراد عقل، شعور، ضمیر، وجدان اور اپنے پورے وجود کے ساتھ مشاہدہ کرنا ہے کہ یقین و ایمان کی وہ منزل آ جائے جس کے بعد مزید یقین کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ جسے قرآن دل کا مشاہدہ قرار دیتا ہے۔

لہٰذا یہ مشاہدہ ظاہری حواس کے ذریعے نہیں ہوا تھا:

لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی﴿﴾ (۵۳ نجم: ۱۸)

بتحقیق انہوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔

بلکہ یہ عقل و شہود دونوں سے بالاتر تھا۔ جس کے بارے میں خود خدواند عالم فرماتا ہے:

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿﴾ (۵۳ نجم:۱۱)

جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔

اس مشاہدے میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جس کی تصدیق کے بعد یقین کی آخری منزل آ جاتی ہے۔ نگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جامع تعریف اس آیت میں آئی ہے:

مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی﴿﴾ (۵۳ نجم:۱۷)

نگاہ نے نہ انحراف کیا اور نہ تجاوز۔

کیا کہنا اس رسولؐ کا جس کی بصارت اور بصیرت کے اعتدال کی گواہی خود خدا دے۔ اس بیان کے بعد اس سوال یا اس اختلاف میں وزن باقی نہیں رہتا کہ معراج کا واقعہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا عالم بیداری میں ؟ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس بیداری میں آسمانی ملکوت کی سیر کرائی ہے ایسی بیداری تو کائنات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوا کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ اس بیداری کا موازنہ دنیا کی نام نہاد بیداریوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس نگاہ کو ہم بیداری کی نگاہ کہتے ہیں اس میں سو فیصد صحیح ادراک ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ اس نگاہ کو دور سے چیزیں چھوٹی نظر آتی ہیں۔ پانی کے اندر سیدھی چیز بھی ٹیڑھی نظر آتی ہے۔ اس طرح نظروں کے دھوکے بہت ہوتے ہیں۔

لیکن نگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیداری کا عالم یہ ہے کہ جب اللہ نے آیات کبریٰ کا مشاہدہ کرایا تو خود خدا نے گواہی دی ہے: مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ۔ اس نگاہ نے حقائق کا کماحقہ مشاہدہ کیا۔ نہ حقائق سے پیچھے رہی نہ آگے گئی۔

ہم متشابہات کی بحث میں لکھ چکے ہیں کہ بعض مطالب، محسوسات اور مادیات سے ماوراء ہوتے ہیں جو ہمارے لیے کماحقہ قابل فہم نہیں ہوتے۔ مثلاً قرآن فرماتا ہے: اللہ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ (۳۱ لقمان: ۲۸) ہے۔ ظاہر ہے اللہ کی سماعت اور بصارت ایسی نہیں ہے جس سے ہم مانوس ہیں اور یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جن چیزوں کو ہمارے حواس نے درک نہ کیا ہو ان کا تصور کرنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ مثلاً اگر پانی نہ ہوتا تو اس کا تصور کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہوتا۔

اللہ تعالیٰ ان غیر مادی لاہوتی حقائق کو ناسوتی یعنی مادی قالب میں بیان فرماتا ہے تو ان حقائق کے بارے میں ہم اپنی مادی محسوساتی حدود میں سوچنے لگتے اور اپنے محدود زمان و مکان کے دائرے میں لاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ غیر مادی حقائق، مادی طبیعاتی قوانین کی دفعات کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس لیے انہیں اپنے محدود ناسوتی دائرے میں لانے اور طبیعاتی قوانین کی دفعات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تاویلیں کرتے ہیں۔

چنانچہ معراج میں عروج سے مراد جاذبہ ارضی کے خلاف جانا اور اسری میں مسافتوں اور فاصلوں کو طے کرنا مراد لیتے ہیں۔

ہم چونکہ زمانی ہیں اس لیے اپنی اس دنیا کے زمانے کے مطابق سوچتے ہیں۔ غیر زمانی حقائق کا ہم ادراک نہیں کر سکتے یا دوسری دنیاؤں کے زمانے کا ہمیں علم نہیں ، اس لیے خیال کرتے ہیں رات کے ایک حصے میں معراج کا یہ طویل سفر کیسے طے ہوا۔

اسی طرح ہم کل کائناتی حقائق کو اپنی محدود دنیا اور علم و آگہی کے محدود دائرے میں سوچتے اور اپنے زمان و مکان کے دائرے میں لا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بلکہ جن حقائق تک اب تک انسان نے رسائی حاصل کی ہے ان کے تحت اس قسم کے مسائل قابل فہم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ الکسس کا ریل انسان کے بارے میں کہتے ہیں :

افراد کو زمان و مکان میں محدود کو سمجھنا ایک مفروضہ ہے۔

اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کے تحت یہ کائنات یک گونہ نہیں ہے کہ زمان و مکان وغیرہ ہر جگہ یکساں ہوں۔ مثلاً ہمارا زمانہ اور روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی چیز کا زمانہ ایک جیسا نہیں ہے بلکہ مذکورہ رفتار کی چیز پر وقت رک جائے گا اور زمین پر سینکڑوں سال گزر چکے ہوں گے۔ لہٰذا معراج نہ صرف مکانی تھی بلکہ زمانی بھی تھی۔ رسول اللہؐ کو عروج، عمق فضا و زمان، زمان و مکان کے ماوراء معراج ہوئی ہے۔

یہ تو وہ چند ایک حقائق ہیں جنہیں آج تک کے انسان نے سمجھا ہے۔ ممکن ہے کل اس سلسلے کے دیگر حقائق منکشف ہو انسان کے سامنے آئیں اور اس مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ اس کے باوجود انسان مستقبل میں خواہ کتنے حقائق و رازہای قدرت تک رسائی کر لے، انسان کی معلومات اس کے مجہولات کے مقابلے میں ہیچ ہوں گی۔ اس لیے انسان کی معلومات کا ملکوت سماوات و ارض کے ساتھ موازانہ کرنا ایک بے جا عمل ہے۔

لہٰذا معراج کے حقائق اور آسمانوں کی طرف عروج کرنے کے لیے ہمارے نظام شمسی میں موجود رکاوٹوں کا ذکر اور ان کا جواب ایک غیر ضروری بحث ہے۔

رہا معراج کے بارے میں منقول روایات کا مسئلہ تو ان میں بعض روایات آیت کے مفہوم کے مطابق ہیں اور بعض میں تفصیل موجود ہے جو کہ آیت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ راویان حدیث اپنے ناسوتی تصورات کے مطابق احادیث نقل کرتے ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قرآن کی طرح کلم الناس علی قدر عقولہم ، لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق بات کرتے تھے۔ لہٰذا بعض روایات تمثیلی ہیں اور اس سلسلے کی بعض روایات قرآن و مسلمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔


آیت 1