آیات 94 - 96
 

فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کریں اور مشرکین کی اعتنا نہ کریں۔

اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ ﴿ۙ۹۵﴾

۹۵۔ آپ کے واسطے ان تمسخر کرنے والوں سے نپٹنے کے لیے یقینا ہم کافی ہیں۔

الَّذِیۡنَ یَجۡعَلُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ۚ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا لیتے ہیں عنقریب انہیں (اپنے انجام کا) علم ہو جائے گا۔

تشریح کلمات

فَاصۡدَعۡ:

( ص د ع ) صدع الامر ، محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کو ظاہر اور واضح کر دینے کے ہیں۔ اصل میں الصدع کے معنی ٹھوس اجسام، جیسے شیشے، لوہے وغیرہ میں شگاف ڈالنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ: نہایت نامساعد حالات میں تبلیغ رسالت کو ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنے کا حکم مل رہا ہے۔ اس آیت کے نزول سے پہلے حضورؐ غیر اعلانیہ طور پر تبلیغ فرماتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپؐ نے اعلانیہ طور پر تبلیغ شروع فرمائی۔ جب کہ قریش کی طرف سے تمسخر و استہزاء کا ایک طوفان برپا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ آ گیا کہ تمسخر اڑانے والوں کے لیے ہم کافی ہیں۔ آپؐ ان مشرکین کی پرواہ کیے بغیر اپنا پیغام صاف صاف لفظوں میں بیان کرنا شروع کریں۔

روایات کے مطابق جن لوگوں نے آپؐ سے تمسخر کیا تھا وہ ایک ایک کر کے مختلف عذاب سے دوچار ہو کر مر گئے۔ ان میں ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل سرفہرست ہیں۔

۲۔ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ: آپؐ اذیت دینے اور استہزاء کرنے والے مشرکین کو اعتنا میں نہ لائیں۔ ان سے نہ الجھیں۔ ان کی وقتی اوچھل کود اس قابل نہیں ہے کہ آپؐ متاثر ہوں۔

۳۔ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ: یہ لوگ صرف آپؐ کے نہیں، اللہ کے مقابلے میں بھی ہیں۔ اگرچہ قریش کی طرف سے تمسخر اور استہزاء کا ایک طوفان برپا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حکم خدا کی بے لاگ تعمیل کی جائے تو دشمن نابود ہو جاتا ہے۔


آیات 94 - 96