آیات 28 - 30
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ بَدَّلُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ کُفۡرًا وَّ اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار دیا؟

جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡقَرَارُ﴿۲۹﴾

۲۹۔ وہ جہنم ہے جس میں وہ جھلس جائیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے ۔

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا لِّیُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ قُلۡ تَمَتَّعُوۡا فَاِنَّ مَصِیۡرَکُمۡ اِلَی النَّارِ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے کچھ ہمسر بنا لیے تاکہ راہ خدا سے (لوگوں کو) گمراہ کریں، ان سے کہدیجئے: (کچھ دن) لطف اٹھا لو آخر کار تمہارا ٹھکانا آتش ہے۔

تشریح کلمات

اَحَلُّوۡا:

( ح ل ل ) حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنے اور فروکش ہونے کے ہیں۔

الۡبَوَارِ:

( ب و ر ) اصل میں کسی چیز کے ماند پڑنے کے معنوں میں ہے اور چونکہ کساد سے فساد آتا ہے اس لیے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ: یہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت تھی کہ اس جاہل قوم کی طرف ایک رسول کو رحمت بنا کر بھیجا۔ طلب مغفرت کی دعوت دی۔ جنت کی طرف راہنمائی فرمائی۔ سعادت ابدی کے سامان فراہم کیے۔

۲۔ وَّ اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ: لیکن کفر و شرک کے رہنماؤں نے اس عظیم نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا۔ خود بھی تباہ ہو گئے اور اپنی قوم کو بھی تباہی کے گھر میں جھونک دیا۔ ذکر سرداران کفر و ضلالت کا ہے۔

۳۔ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا: وہ ہلاکت کا گھر جہنم ہے جس میں یہ لوگ جھلس جائیں گے اور ان کے لیے جہنم ان کے تصورات سے زیادہ برا ٹھکانا ہے۔

۴۔ وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا: ان کافروں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی شان میں اس حد تک گستاخی کی، ایسی چیزیں اللہ کے مقابلے میں لائے جو خود اپنے نفع و نقصان کی مالک نہیں ہیں۔ یہ سب اس لیے کیا تاکہ راہ حق، جو توحید پروردگار ہے، سے لوگ منحرف ہو جائیں۔

اہم نکات

۱۔ ایک راہنما کے گمراہ ہونے سے ایک قوم گمراہ ہو جاتی ہے: وَّ اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ ۔

۲۔ سرداران کفر نے اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو شرک میں مبتلا کیا: وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا ۔۔۔۔


آیات 28 - 30