آیت 27
 

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفۡعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ﴿٪۲۷﴾

۲۷۔اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اللہ کی مشیت اندھی بانٹ نہیں ہوتی، حکمت و عدالت کے مطابق ہوتی ہے۔ ہر مستحق کو اس کا حق اور ہر ستم کار کو سزا دیتا ہے جس کا وہ سزاوار ہے۔ چنانچہ ایمان لانے والے لوگوں نے اپنے آپ کو شجرہ طیبہ جیسے عظیم اور پائدار درخت کے ساتھ پیوستہ، اللہ کی عنایتوں کے سزاوار اور اہل ثابت کر دیا ہے۔ ایسے مومنوں کو اللہ دنیا میں ثابت قدمی بخشتا ہے کہ جو مشکلات و مصائب پہاڑوں کو پاش پاش کرنے والے ہوں وہ اس مؤمن کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جس راستے کو اختیار کیا ہے اس پر پختہ یقین ان کی ہر مشکل آسان بنا دیتا ہے۔ منزل سے عشق اور ایمان کی وجہ سے راستے میں پیش آنے والی کڑی سی کڑی آزمائش ان کو شیرین معلوم ہوتی ہے۔

ابن عباس راوی ہیں :

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ ۔۔۔۔ سے مراد ولایت علی بن ابی طالب(ع) پر ثابت قدم رہنا ہے۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیہ)

عبدالرحمن بن عوف راوی ہے: میں نے اپنے غلام سے کہا کہ میں تجھے ایک حدیث بتا دیتا ہوں قبل اس کے کہ یہ حدیث باطل باتوں کے ساتھ مخلوط ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا:

انا شجرۃ و فاطمۃ فرعہا و علی لقاحھا و حسن و حسین ثمرھا و محبوھم من امتی ورقہا، ثم قال ھم فی جنۃ عدن والذی بعثنی بالحق ۔ (شواہد التنزیل ۱: ۴۰۷)

میں شجرہ ہوں ، فاطمہ اس کی شاخ علی اس کی بارداری اور حسن و حسین اس کے پھل اور میری امت میں سے ان کے محبین اس کے پتے ہیں۔ پھر فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث کیا ہے وہ جنت عدن میں ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان ہی مایہ استقامت ہے: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۔۔۔۔

۲۔ انسان دنیا و آخرت دونوں میں تائید الٰہی کا محتاج ہے: فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۔۔۔۔


آیت 27