آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ ابراہیم

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکی زندگی کے آخری دنوں میں نازل ہوا ہو گا چونکہ یہ سورہ بھی باقی مکی سورتوں کی طرح اصول عقائد پر زیادہ زور دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی ان دنوں نازل ہو رہا تھا جب کفار قریش کی طرف سے ظلم انتہا کو پہنچ گیا تھا کیونکہ اس سورہ میں ان مشکلات کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام کو پیش آئیں۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ ۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۱۳)

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے۔

اور انبیاء کو جو فتح و نصرت کی نوید سنائی گئی تھی اس کا ذکر ہے۔

مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿﴾ وَ لَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۱۳۔۱۴)

ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے اور ان کے بعد اس سرزمین میں ہم ضرور تمہیں آباد کریں گے۔

اسی سورہ میں سرکشوں کے برے انجام اور انبیاء کی فتح و نصرت اور کامیابی کا ذکر ہے۔

وَ اسۡتَفۡتَحُوۡا وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿﴾ (۱۴ ابراہیم: ۱۵)

اور انبیاء نے فتح و نصرت مانگی تو ہر سرکش دشمن نامراد ہو کر رہ گیا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں انبیاء علیہم السلام کی تاریخ کے ضمن میں اللہ کی سنت اور اس کا طریقہ عمل بیان فرمایا جا رہا ہے کہ مشکل ترین مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اللہ کی طرف سے فتح و نصرت ملتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔

اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ شَدِیۡدِۣ ۙ﴿۲﴾

۲۔ جس اللہ کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات ہیں اور کافروں کے لیے عذاب شدید کی تباہی ہے۔

الَّذِیۡنَ یَسۡتَحِبُّوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۳﴾

۳۔ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں انحراف لانا چاہتے ہیں یہ لوگ گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ: قرآن ضلالت کی تاریکیوں سے ہدایت کے نور کی طرف لے جانے والی کتاب ہے۔ وہ نور خدائے ذوالجلال کا راستہ ہے جس سے ابدی منزل تک پہنچنے کا راستہ نظر آتا ہے۔

۲۔ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ: اس ابدی راستے کے ذریعے اس خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں بازیابی ہو گی جو کل کائنات کا مالک ہے۔ دنیاوی علوم جو محدود راہنمائی کا باعث ہیں ، انہیں لوگ روشنی کہتے ہیں اور صاحبان اقتدار جو محدود سلطنت پر متمکن ہوتے ہیں ، ان تک پہنچنے کا ذریعہ جو بھی ہو گا اسے لوگ اہمیت دیتے ہیں۔ اس قرآن کی کتنی اہمیت ہونی چاہیے جو ابدی راستے کے لیے نور کا کام دے اور کل کائنات کے مالک کے دربار تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔

۳۔ الَّذِیۡنَ یَسۡتَحِبُّوۡنَ: اس کے مقابلے میں کافر، جو ظلمت اور تاریکی میں ہیں وہ ان ہی دنیاوی مفادات کو عزیز سمجھتے ہیں اور راہ خدا میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ وہ یقیناً گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔ واضح رہے دنیاوی مفادات، جب آخرت کے ساتھ متصادم ہوں تو اس وقت آخرت کو چھوڑ کر دنیاوی مفادات کو اختیار کرنا گمراہی ہے لیکن اگر متصادم نہ ہوں تو دنیا کی زندگی کے لوازم حلال ذرائع سے فراہم کرنا عبادت ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن ظلمتوں کے خلاف ایک نور ہے۔

۲۔ قرآن مالک ارض و سما تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔


آیات 1 - 3