آیت 33
 

اَفَمَنۡ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ ۚ وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ قُلۡ سَمُّوۡہُمۡ ؕ اَمۡ تُنَبِّـُٔوۡنَہٗ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ بِظَاہِرٍ مِّنَ الۡقَوۡلِ ؕ بَلۡ زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مَکۡرُہُمۡ وَ صُدُّوۡا عَنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کیا وہ اللہ جو ہر نفس کے عمل پر کڑی نظر رکھتا ہے (بے حس بتوں کی طرح ہو سکتا ہے جنہیں) ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے؟ کہدیجئے: ان کے نام (اور اوصاف) بیان کرو (جیسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ ہیں)،ـ کیا تم اللہ کو ایسی خبر دینا چاہتے ہو جسے وہ اس زمین میں نہیں جانتا یا یہ محض ایک کھوکھلی بات ہے؟ بلکہ دراصل کافروں کے لیے ان کی مکاری زیبا بنا دی گئی ہے اور ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدود ہے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَمَنۡ ہُوَ قَآئِمٌ: وہ ذات جو ہر متنفس کے اعمال پر نظر رکھتی ہے اور ہدایت و ضلالت اس کے ہاتھ میں ہے، وہ حی، قادر، علیم، خالق، رازق، مالک، مدبر، قہار، رحمن، غفور، رحیم جیسے اسماء حسنی و اوصاف کی مالک ہے۔

۲۔ قُلۡ سَمُّوۡہُمۡ: وہ ان بے شعور بتوں کی طرح ہو سکتی ہے جو صرف کھوکھلے لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان بتوں کو حی، قادر، قہار، خالق، علیم جیسی صفات کے ساتھ متصف نہیں کیا جا سکتا۔

۳۔ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی الۡاَرۡضِ: ایسے کسی شریک کا اللہ تعالیٰ کو علم تک نہیں ہے۔ کیا تم اللہ کے لیے یہ خبر دے رہے ہو کہ زمین میں آپ کا کوئی شریک ہے؟ لہٰذا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان بتوں کے لیے اللہ کے اوصاف جیسے اوصاف ہیں، نہ یہ کہنا درست ہے کہ ان بتوں اور ان کے اوصاف کا اللہ کو علم نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہو گیا کہ ان کی باتوں میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ مشرکین کے پاس کسی قسم کی منطق نہیں ہے: اَمۡ بِظَاہِرٍ مِّنَ الۡقَوۡلِ ۔۔۔۔

۲۔ شرک کو شیطان خوشنما بنا دیتا ہے: بَلۡ زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۔۔۔۔


آیت 33