آیت 15
 

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا وَّ ظِلٰلُہُمۡ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ٛ۱۵﴾

۱۵۔ اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں۔

تشریح کلمات

الغدو:

غداۃ کی جمع ہے۔ دن کی ابتدا کو کہتے ہیں۔ الاصال ، اصیل کی جمع ہے۔ دن کے آخری حصے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ: آسمانوں اور زمین پر موجودات میں سے ہر ایک کا اپنا سجدہ ہے۔ ان مختلف سجدوں کا جامع خضوع وانکسار ہے۔ چنانچہ کبھی سجدے کی جگہ لفظ اَسۡلَمَ استعمال فرمایا ہے:

اَفَغَیۡرَ دِیۡنِ اللّٰہِ یَبۡغُوۡنَ وَ لَہٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۸۳)

کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے خواہاں ہیں ؟حالانکہ آسمانوں اور زمین کی موجودات نے چار و ناچار اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیے ہیں۔۔۔۔

۲۔ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا: البتہ ان میں سے بعض سے بشوق و رغبت سجدے (حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا) صادر ہوتے ہیں اور بعض سے بزور صادر ہوتے ہیں۔ جیسے بیمار ہونا، مر جانا وغیرہ۔

۳۔ َظِلٰلُہُمۡ: سایہ اضافی تاریکی کو کہتے ہیں جو روشنی کی امواج میں غیر شفاف جسم کے حائل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ غیر مہذب (وحشی) قوموں میں سائے کو عالم بالا کی کوئی چیز سمجھ کر اس سے بہت ڈرا گیا ہے۔ ( تفسیر دریابادی) سائے بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ کے سجدے میں شامل ہیں جو صبح اور شام کے اوقات میں نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ سایہ اگرچہ کسی حقیقی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نور نہ ہونے سے عبارت اور ایک امر عدمی ہے، تاہم یہ کسی موجود کی علامت ہے۔ رہا یہ سوال کہ سایہ امر عدمی ہے اور عدم مخلوق نہیں ہوتا، درست نہیں ہے۔ سایہ عدم نہیں، موجود چیز ہے کہ اللہ نے غیر شفاف اجسام خلق کر کے سایہ وجود میں لایا ہے۔ اگر تمام اجسام شفاف ہوتے تو سایہ وجود میں نہ آتا۔ اس لیے اس کی طرف سجدہ کی نسبت صحیح ہے نیز سایہ کا طبعی وجود زمین پر بچھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے اس حالت کو سجدہ کہا جا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تمام کائنات ایک عبادت خانہ ہے: وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ ۔۔۔۔

۲۔ آسمانوں میں بھی عاقل موجودات ہیں: مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ ۔۔۔۔


آیت 15