آیت 11
 

لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار ( فرشتے) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں، اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔

تشریح کلمات

مُعَقِّبٰتٌ:

( ع ق ب ) یکے بعد دیگرے آنے والے۔ اس کا مفرد معقبۃ ہے۔ تانیث نہیں بلکہ علامۃ کی تاء کی طرح مبالغہ کے لیے ہے۔ لَہٗ کی ضمیر کا مرجع وہی ہے جو یَدَیۡہِ، خَلۡفِہٖ، یَحۡفَظُوۡنَہٗ کا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ: اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے مامور ہیں۔ فرشتہ ہائے شب اور فرشتہ ہائے روز یکے بعد دیگرے انسان کی حفاظت کے لیے آتے جاتے ہیں۔ نماز صبح کے موقع پر شب اور روز کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ فرشتے انسان کو ان تمام آفات سے بچاتے ہیں جو ہمیشہ انسانی وجود و بقا کے لیے مہلک ہوتی ہیں۔ انسان کے وجود کے اندر موجود مہلک چیزوں سے بچانے والے بھی موجود ہیں اور بیرونی خطرات سے بچانے والے بھی۔ طبعی اور ناگہانی آفتوں سے بچانے والے ہر گونہ محافظ موجود ہیں کہ اگر انسان کو زخم لگ جاتا ہے تو اس ناگہانی آفت سے بچانے والے اس زخم کومندمل کرتے ہیں۔ وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿﴾ ۔ (۸۲ انفطار: ۱۰۔ جب کہ تم پر نگران مقرر ہیں) لہٰذا ممکن ہے روز و شب کے محافظ فرشتوں کے ساتھ طبعی محافظین پر بھی مُعَقِّبٰتٌ صادق آئے۔

۲۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ: انسان کی محافظت کا اللہ نے ذمہ لیا ہے لیکن انسان کے اپنے اعمال و حرکات کے اثرات سے بچانے کا ذمہ نہیں لیا۔ اس میں تو اللہ از خود کسی قوم کا حال نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ حالات میں تغیر کی دو صورتیں ممکن ہیں:

i۔ صلاح احوال کی صورت میں دوام نعمت۔

ii۔ فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت و نزول عذاب۔

اول الذکر کے بارے میں یہ آیت ایک کلیہ قائم کرتی ہے کہ کوئی قوم جب تک صلاح احوال میں ہے تو اس حالت میں اللہ کوئی تبدیلی نہیں لاتا جب تک لوگ خود تبدیلی نہ لائیں۔ یہ مقام رحمانیت کے خلاف ہے کہ ایک قوم کے نیک سیرت ہونے کے باوجود اس کی نیک بختی کو بدبختی میں بدل دے۔ لہٰذا یہ ایک حتمی قانون الٰہی ہے کہ قوموں میں اگر اصلاح احوال اور نیک سیرتی عام ہے تو اللہ کی طرف سے مادی و معنوی نعمتوں میں فراوانی ہو گی۔ چنانچہ فرمایا:

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا عَلٰی قَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔(۸ انفال: ۵۳)

ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔۔۔۔

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۷)

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا۔

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ۔۔۔۔ (۲۹ عنکبوت: ۶۹)

جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے۔

اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ (۴۷ محمد: ۷)

تم اگر اللہ کی مدد کرو تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ۔۔۔۔ (۶۵ طلاق: ۲۔۳)

اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا ۔۔۔۔( ۸ انفال: ۲۹)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں ) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا۔۔۔۔

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔ (۷ اعراف: ۹۶)

اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔۔۔۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ۔۔۔۔ ( ۵ مائدہ:۶۶)

اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے۔

درج بالا آیات میں شکر کا نتیجہ فراوانی، جہاد و سعی کا لازمہ کشایش، اللہ کی نصرت کا نتیجہ، ثابت قدمی، تقویٰ کا لازمہ حق و باطل میں تمیز، ایمان و تقویٰ کا لازمہ برکتیں، قانون الٰہی کے نفاذ کا لازمہ نعمتوں کی ارزانی قرار دیا گیا ہے۔

فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت: درج ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت و نزول عذاب ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۔۔۔ (۸ انفال: ۲۵)

اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے ہی نہیں بلکہ (سب) آئیں گے۔

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا ۔۔۔۔ (۱۰: یونس ۱۳)

اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے۔۔۔۔

وَ الَّذِیۡنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَۃٍۭ بِمِثۡلِہَا ۙ وَ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ۔۔۔۔ (۱۰: یونس ۲۷)

اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی۔۔۔۔

ان آیات میں ظلم کا نتیجہ فتنہ و ہلاکت، گناہوں کا نتیجہ ذلت و خواری قرار دیا ہے۔

تاہم یہ لطف خداوندی ہے کہ اس نتیجہ کو لازمی اور ضروری قرار نہیں دیا ہے۔ چنانچہ بعض حالات میں ظلم و گناہ کے باوجود عفو فرماتا ہے۔

وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلۡمِہِمۡ مَّا تَرَکَ عَلَیۡہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ ۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۶۱)

اور اگر لوگوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا۔

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿﴾ (۴۲شوری:۳۰)

اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

لہٰذا قوموں کا انحطاط اور تنزل ان کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں وقوع پذیز رہتا ہے اور یہاں انسان کا اپنا عمل ہی تقدیر ساز ہے اور ہر قسم کی بدبختی اور نعمتوں سے محرومیت، اغیار کے مقابلے میں ذلت و خواری، استعمار کا تسلط اور استحصال، یہ سب قوموں کے اپنی داخلی بداعمالیوں کالازمی نتیجہ ہیں۔

اس کلیے کے تحت مسلمانوں کا انحطاط اور اغیار کے سامنے ان کی عبرتناک ذلت، ان کی اپنی داخلی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ انہیں بیرونی عوامل کے ذمے لگانا درست نہیں ہے کیونکہ بیرونی عوامل کے لیے داخلی عوامل زمین ہموار کرتے ہیں۔

لہٰذا زوال نعمت کے لیے انسان کے اعمال موثر ہیں، تاہم لازمی نہیں ہے اور اس کا لازمی نہ ہونا لطف الٰہی ہے۔

اسحاق بن عمار نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: یہ بتا دیجیے کہ فجر کی نماز کے لیے بہترین وقت کون سا ہے؟ آپؑ نے فرمایا:

فَقَالَ: مَعَ طُلُوعِ الْفَجْرِ۔ اَنَّ اللّٰہ عَزَّ وَ جَلَّ یَقُولُ: وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا۔ یَعْنِی صَلَاۃَ الْفَجْرِ تَشْہَدُہُ مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَ مَلَائِکَۃُ النَّھَارِ فَاِذََا صَلَّی الْعَبْدُ الصَّبْحَ مَعَ طَلُوعِ الْفَجْرِ اُثْبِتَتْ لَہٗ مَرَّتَیْنِ اَثْبَتَھَا مَلَائِکَۃُ اللَّیْلِ وَ مَلَائِکَۃُ النَّھَارِ ۔ (الکافی۳:۲۸۲۔ الاستبصار ۱: ۲۷۵)

بہترین وقت طلوع فجر کا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: صبح کی نماز بھی، بے شک صبح کی نماز حضور کا وقت ہے۔ یعنی صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے حاضر رہتے ہیں۔ جب بندہ طلوع فجرکے وقت نماز پڑھتا ہے تو یہ نماز دو بار ثبت ہو جائے گی۔ ایک رات کے فرشتے ثبت کریں گے اور ایک دن کے فرشتے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ مَعَ کُلِّ اَنْسَانٍ مَلَکَیْنِ یَحْفَظَانِہٖ فَاِذَا جَائَ الْقَدَرُ خَلَّیَا بَیْنَہٗ وَ بَیْنَہٗ ۔۔۔( نہج البلاغۃ حکمت: ۲۰۱)

ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ ہماری تمام مشکلات کا سرچشمہ خود ہماری اپنی بداعمالیاں ہیں اور زوال و انحطاط کے ہم خود ذمے دار ہیں۔

۲۔ تمام مشکلات کا حل بھی خود ہمارے پاس ہے۔ امتوں کو اپنی تقدیر سازی خود کرنی ہے۔

۳۔ اصلاح احوال کی صورت میں دوام نعمت ضروری ہے۔ فساد احوال کی صورت میں زوال و انحطاط آتا ہے اور اللہ درگزر بھی فرماتا ہے۔

۴۔ اللہ کے محافظین ہر انسان کو بیرونی خطرات سے بچا لیتے ہیں لیکن داخلی خطرات جو اس کے اپنے اعمال سے پیش آتے ہیں، اس کے خود ذمے دار ہیں۔


آیت 11