آیات 54 - 55
 

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور بادشاہ نے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ، میں اسے خاص طور سے اپنے لیے رکھوں گا پھر جب یوسف نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اس نے کہا: بے شک آج آپ ہمارے بااختیار امانتدار ہیں۔

قَالَ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ﴿۵۵﴾

۵۵۔ یوسف نے کہا : مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ: جب بادشاہ کو اندازہ ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نفس کی طہارت اور کردار کی بلندی کے ساتھ فہم و فراست اور لیاقت و حکمت کے مالک ہیں تو ان کو زندان سے آزاد کر کے اپنے پاس اس لیے بلایا تھا کہ انہیں اپنا معتمد خصوصی اور مشیر خاص بنایا جائے۔

۲۔ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ: لیکن جب حضرت یوسف علیہ السلام سے روبرو ہو کر گفتگو کی تو ان کا مقام ایک مشیر و معتمد سے بہت بالاتر پایا اور بادشاہ کا موقف بدل گیا۔ اب معتمد خاص نہیں ، سلطنت و تمکنت کا مالک بنا دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے امور مملکت میں اقتصادی معاملات کو آنے والے حالات کے پیش نظر اہمیت دی اور خزائن الارض کی ذمہ داری قبول فرمائی۔ امور مملکت میں سب سے نازک مسئلہ عام حالات میں اقتصادی مسائل ہوا کرتے ہیں۔ خصوصاً قحط سالی کی صورت میں تو یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ اور وبال جان بن جاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اقتدار برائے اقتدار قبول نہیں فرمایا بلکہ برائے عدل و انصاف اور خدمت خلق قبول فرمایا۔ یہ کافر کی حکومت کی تقویت کے لیے نہیں ، انصاف کی حکومت کے قیام کے لیے، لوگوں کو غلام بنانے کے لیے نہیں جیسا کہ شاہی نظام استبداد میں ہوتا ہے بلکہ انسانیت کو ہلاکت سے نجات دلانے اور عدل و انصاف کو متعارف کرانے کے لیے تھا۔ آنے والے قحط کے سالوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کی وضع کردہ اقتصادی پالیسی اور تقسیم دولت میں عدل و انصاف اس بات پر گواہ ہے۔

واضح رہے احکام الٰہی کے لیے زمان و مکان کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے شریعتیں منسوخ ہوتی ہیں اور ایک ہی شریعت میں احکام منسوخ ہوتے ہیں۔ بعض احکام قاعدہ اہم و مہم کے تحت ولایت حاکم کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ان میں لچک ہوتی ہے۔ان کی تشخیص جامع الشرائط فقیہ دے سکتے ہیں۔

لہٰذا یہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک طاغوت کو اپنی خدمات کس طرح پیش کیں اور کیا کافر حکومت کی تقویت درست ہے؟

اسی طرح ان مفاد پرستوں کی یہ توجیہ بھی غلط ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے ظالموں کے درباری اور ان کے مظالم کے دست و بازو بن کر حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کو جواز کے لیے دلیل بناتے ہیں۔

ہم نے تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اپنے ناجائز مفادات کے لیے جواز پیدا کرنے کی غرض سے بزرگان دین کے سیرت و کردار، اپنے کردار کی سطح پر اتارتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ فرمان: اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ خود نمائی نہیں ہے بلکہ اپنے منصب و ذمے داری کا تعارف ہے۔ جیسا کہ تمام انبیاء یہی تو فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول ہیں۔ صادق القول، امین ہیں ، ہادیان برحق ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اہم انتظامی امور کی اہلیت کے لیے امانت و مہارت ضروری ہے۔

۲۔ مفادات، خواہ مادی ہی کیوں نہ ہوں ، ان کے حصول میں کامیابی حکمرانوں کے سامنے جھکنے اور زمین بوس ہونے میں نہیں بلکہ کرامت نفس اور غیرت و حمیت کے تحفظ میں ہے۔


آیات 54 - 55