آیات 38 - 39
 

وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ﴿ؕ۳۸﴾

۳۸۔ اور وہ (نوح) کشتی بنانے لگے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو وہاں سے گزرتا وہ ان کا مذاق اڑاتا تھا، نوح نے کہا: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توکل ہم تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جیسے تم مذاق اڑاتے ہو۔

فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ یَحِلُّ عَلَیۡہِ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ عنقریب تمہیں علم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب نازل ہو گا۔

تفسیر آیات

حضرت نوح علیہ السلام جب خشکی پر کشتی بنا رہے تھے تو منکرین وحی اور ایمان بالغیب سے محروم، ظاہر بین اور سطحی سوچ رکھنے والے اس عمل کو نوح علیہ السلام کی دیوانگی کا واضح ثبوت قرار دیتے اور مذاق اڑاتے تھے اور غیب پر ایمان رکھنے والے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے انجام کی بھلائی اور نجات کا ذریعہ بنا رہے تھے۔ ان کو اپنے ایمان کی آنکھوں سے طوفان نظر آرہا تھا اور منکرین کی غرق آبی کا بھی مشاہدہ کر رہے تھے جب کہ یہ ظاہر پرست اپنے انجام سے بے خبر الٹا نجات پانے والوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان بالغیب والے جو ذریعہ نجات بناتے ہیں وہ ظاہر پرستوں کی نظر میں مضحکہ ہوتا ہے۔


آیات 38 - 39