آیت 37
 

وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے ایک کشتی بنائیں اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں۔

تفسیر آیات

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں جہاز رانی اور کشتی سازی کی صنعت ممکن ہے رائج نہ ہو۔ اس لیے بذریعہ وحی اس صنعت کو متعارف کرایا گیا یا ممکن ہے یہ صنعت کم و بیش رائج ہو لیکن کشتی کی نوعیت اور ظرفیت و دیگر خصوصیات وحی کے ذریعہ بتا دی گئی ہوں۔ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ ہماری نگرانی میں بناؤ۔ اس کشتی کی تفصیلات، جزئیات اور جملہ ہدایات اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ملتی ہیں۔

کشتی بنانے کا حکم اس وقت ہوا جب ان پر حجت پوری ہو چکی تھی، مہلت دی گئی تھی اور کوئی ایمان لانے والا بھی نہ تھا۔ نہ ان کی نسلوں میں کوئی مؤمن تھا:

وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا (۷۱ نوح: ۲۷)

اور یہ لوگ صرف بدکار کافر اولاد ہی پیدا کریں گے۔

اس لیے ان کی سفارش و شفاعت بھی ممنوع ہو گئی۔

کہتے ہیں مسیحی علماء نے اس کشتی کے طول و عرض پر تحقیق کی ہے کہ اس کا طول پانچ سو پچیس فٹ عرض ساڑھے ستاون فٹ اور اونچائی ساڑھے باون فٹ تھی جب کہ اسلامی روایت اور توریت کی عبارت اس سے مختلف ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے حتمی فیصلے کے بعد دعا بے اثر ہو جاتی ہے: وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۔۔۔۔

۲۔ کشتی کی صنعت کی ابتدا وحی کے ذریعہ ہوئی: وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا ۔۔۔۔


آیت 37