آیت 35
 

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَعَلَیَّ اِجۡرَامِیۡ وَ اَنَا بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُجۡرِمُوۡنَ﴿٪۳۵﴾

۳۵۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں: اس شخص (محمد) نے یہ باتیں بنائی ہیں؟کہدیجئے: اگر یہ باتیں میں نے بنائی ہیں تو میں اپنے جرم کا خود ذمے دار ہوں اور جس جرم کے تم مرتکب ہو میں اس سے بری ہوں ۔

تفسیر آیات

حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی قسم کے دلائل پیش کرنا پڑے اور مکہ کے منکرین نے بھی اسی قسم کا جواب دیا تھا۔ کفار مکہ نے یہ الزام لگایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوح علیہ السلام کے نام سے ایسے واقعات خود گھڑ لیتے ہیں جو خود انہیں پیش آ رہے ہیں اور اسے ہم پر چسپاں کرتے ہیں۔ اس لیے واقعہ نوح کے بارے میں سلسلہ کلام قطع کر کے اس شبہ کا جواب دیا گیا کہ اگر میں اپنی طرف سے اس قسم کے قصے کہانیاں بنا لیتا ہوں تو یہ ایک جرم ہے جب میں اسے جرم سمجھتا ہوں تو میں کیسے اس کا ارتکاب کروں گا مگر تم جس جرم کے ہمیشہ مرتکب ہو رہے ہو اسے جرم ہی نہیں سمجھتے لہٰذا تم ہی جرم کے مرتکب ہو، میں اس سے برائت چاہتا ہوں۔

اہم نکات

۱۔ ہر شخص اپنے جرم کا خود ذمے دار ہے: فَعَلَیَّ اِجۡرَامِیۡ ۔۔۔۔


آیت 35