آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ التوبۃ

کیا سورۂ برائت ایک مستقل سورہ ہے یا سورہ انفال کا حصہ ہے؟ مفسرین کو اس میں اختلاف ہے اور احادیث میں بھی اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دونوں سورتوں کے مطالب بھی تقریباً ایک جیسے ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو صرف اجمال و تفصیل کا ہے۔

سورہ کا نام: اس سورہ کو سورہ برائت، سورہ توبہ، سورۃ الفاضحۃ اور سورۃ العذاب کہتے ہیں۔

شروع میں بسم اللّٰہ نہ لکھنے کی وجہ: سورہ برائت کے شروع میں بسم اللّٰہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ خود زمان رسالتمآبؐ میں آپؐ کے حکم سے اس کی ابتداء میں بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی۔

حاکم نے مستدرک میں ابن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ سورہ برائت میں بسم اللّٰہ کیوں نہیں لکھی گئی تو آپؑ نے فرمایا:

لانھا امان و براء ۃ نزلت بالسیف ۔(محاسن التاویل ۸: ۱۲۱)

بسم اللّٰہ امان ہے اور سورۂ برائت تلوار لے کر نازل ہوا ہے۔

اس سے دو مطلب ثابت ہوتے ہیں :

الف : قرآن کی تدوین عصر رسالت میں ہو چکی تھی اور ہمارے ہاتھ میں اسی شکل میں موجود ہے جیسے رسول اللہؐ امت کے حوالے کر گئے تھے۔

ب: بسم اللہ ہر سورے کا جز ہے جیسا کہ مذہب امامیہ کا مؤقف ہے۔ ہر سورہ کے ساتھ بسم اللّٰہ کا لکھا جانا اور صرف سورہ برائت کے ساتھ نہ لکھا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ بسم اللّٰہ سورہ برائت کے علاوہ باقی سورہ ہائے قرآن کا جز ہے۔

غیر شیعہ مصادر میں ابن عجلان اور سعید بن جبیر سے روایت ہے: سورہ برائت (توبہ) سورۂ بقرہ کے برابر تھا۔ اس کا ایک حصہ ضائع ہو گیا۔ اس کے ساتھ بسم اللّٰہ بھی ضائع ہو گئی۔ تفسیر قرطبی ۸: ۶۲

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے:

ما تقرون ثلثھا یعنی سورۃ توبہ ۔

تم سورۂ توبہ کے ایک تہائی کو پڑھتے ہو۔

دوسری روایت میں انہوں نے کہا:

لا تقرؤن منھا مما کنا نقرأ الاربعھا ۔ ( الدار المنثور ۳: ۲۰۸)

جو سورۂ توبہ ہم پڑھتے تھے اس میں سے تم صرف ایک چوتھائی کو پڑھتے ہو۔

مالک سے روایت ہے:

ان اولھا سقط، سقط بعہ البسملۃ فقد ثبت انھا کانت تعدل البقرہ لطولھا ۔ ( محاسن التاویل ۵:۳۴۵)

سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ ضائع ہو گیا۔ جس کے ساتھ بسم اللہ بھی ضائع ہو گئی۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہے سورۂ توبہ سورۂ بقرہ کے برابر تھا طوالت میں۔

شیعہ اس قسم کی روایات کو سرے سے ہی قبول نہیں کرتے جب کہ غیر شیعہ ایسی روایات کو قبول کرتے ہیں ، پھر ایک متنازعہ نظریے (نسخ تلاوت) کے ذریعے ان کی قرآنی حیثیت سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ تفصیل کے لیے مقدمہ تفسیرمیں تحریف کا عنوان ملاحظہ فرمائیں۔

زمانہ نزول: خود سورہ کے مضامین کی گواہی کے مطابق اس سورہ کا ایک حصہ جنگ تبوک سے پہلے، کچھ جنگ کی تیاریوں کے دوران اور کچھ حصہ جنگ کے بعد نازل ہوا اور ایک حصہ ۹ ہجری کے اواخر میں موسم حج کے قریب نازل ہوا۔ موسم حج کے قریب نازل ہونے والا حصہ، نزول ترتیب کے اعتبار سے آخر میں نازل ہوا لیکن تدوینی ترتیب میں یہ حصہ سب سے پہلے ہے۔ اس سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آیات کی ترتیب رسول کریمؐ کی طرف سے ہے۔

مضامین: یہ سورہ رسول کریمؐ کی زندگی کے اواخر میں نازل ہوا، اس لیے اس میں بہت سے احکام کو آخری شکل دے دی گئی ہے۔

فتح مکہ کے بعد عرب کافروں نے جنگ حنین میں اس اسلامی تحریک کو کچلنے کی آخری کوشش کی۔ جب و ہ اس جنگ میں بھی شکست کھا گئے تو وہ مایوس ہو گئے اور اسلامی ریاست کو اب عرب کافروں کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا لیکن اس سے دو نئے مسائل اور سامنے آ گئے:

i۔ مسلمان تساہل پرست ہوگئے تھے اور داخلی خطرات سے فارغ ہونے کے بعد بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ چنانچہ رومیوں کے خلاف تبوک کی جنگ کے لیے نکلنے کا حکم دیا گیا تو اس وقت مسلمانوں کی عدم آمادگی کا اندازہ اس سورہ کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ وَ لَا تَضُرُّوۡہُ شَیۡئًا ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔۔۔۔ (۹ توبۃ : ۳۸۔ ۳۹)

اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اگر تم نہ نکلو گے توا للہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا۔۔۔۔

ii۔ فتح مکہ اور غزوہ حنین کی فتح اور جنگ موتہ میں بیرونی دشمن کے مقابلے میں فتح کے بعد عرب جاہلیت پر مایوسی چھا گئی تھی۔ اب وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی جنگی محاذ کھولنے کے قابل نہ رہے۔ کیونکہ جاہلی قوت کے دو ستون تھے: ایک قریش دوسرا ہوازن و ثقیف کے قبائل۔ قریش کا ستون فتح مکہ کے موقع پر گر گیا اور قبائل ہوازن و ثقیف کا ستون غزوۂ حنین میں۔ لہٰذا لوگ بڑی تعداد میں طاعۃً نہیں کراہۃً بظاہر اسلام میں داخل ہو گئے لیکن وہ اپنے دلوں میں نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں رکھتے تھے بلکہ اسلام کے خلاف عداوت اور عناد ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسلام میں اس طرح داخل ہونے والوں کی تعداد بڑی تیزی سے خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ ان منافقین نے اسلام کے خلاف ایک منظم سازش شروع کی تھی۔ ان کی طرف سے مسلمانوں کے حساس مقامات پر جاسوس متعین تھے۔ چنانچہ اسی سورہ کی آیت ۴۷ میں اس بات کی صراحت موجود ہے: وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ۔۔۔۔ تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا تھا جسے مسجد کا نام دے کر وہ اپنی سازشوں کو چھپانا چاہتے تھے اور اس مسجد کو اپنی کمین گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے، جسے رسول اللہؐ نے تبوک سے واپسی پر گرا دیا۔ اب بیرونی خطرات کو کچلنے کے بعد اسلام کو داخلی خطرات کا سامنا ہے۔

سورہ برائت اس داخلی دشمن کے چہرے سے پردہ اٹھاتا ہے اورا س کے عزائم فاش کرتا ہے۔ اس سورہ کے نزول کے بعد منافقین اس قدر رسوا ہوئے کہ وہ کسی سازش کو بروئے کار لانے کے قابل نہ رہے۔ان میں سے بہت سے چہرے ہنوز فاش نہیں ہوئے تھے۔ ان کو یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ کہیں ہم بھی فاش نہ ہوجائیں۔ چنانچہ صاحب سر رسولؐ حضرت حذیفہؓ کے پاس یہ راز موجود تھا۔ حضرت حذیفہؓ نے حکم رسولؐ کی پاسداری کرتے ہوئے ان چہروں کو بے نقاب نہیں کیا تاہم اس سے ہمیں اجمالاً یہ علم ہو گیا کہ کچھ چہرے تا آخر پردے میں رہ گئے۔

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾

۱۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (اعلان) بیزاری ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔

فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲﴾

۲۔ پس تم لوگ اس ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

مشرکین کے ساتھ معاہدہ، حدیبیہ میں ہوا تھا اور اس کی مدت دس سال تھی۔ اس معاہدے کے بعد بنی بکر اور قبیلہ خزاعہ میں لڑائی چھڑ گئی۔ بنی بکر کا قریش کے ساتھ اور قبیلہ خزاعہ کا رسالتمآب کے ساتھ معاہدہ تھا۔ قریش نے اس لڑائی میں بنی بکر کا ساتھ دیا۔ جس سے حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا اور یہی عہد شکنی فتح مکہ کا سبب بن گئی۔ صلح حدیبیہ کے دو سال بعد مکہ فتح ہو گیا۔

یہ اعلان اس کلیے کے تحت ہے جو قرآن نے قائم کیا ہے کہ اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو تو ان کا عہد اس طر ح مسترد کر دیں جیسے انہوں نے کیا ہے۔ یعنی کسی جنگی کارروائی سے پہلے معاہدہ ختم ہونے کا اعلان کرنا ضروری ہے ورنہ خیانت شمار ہو گی اور اگر نقض عہد کا عمل مخالف کی طرف سے سرزد نہ ہوا ہو تو اسلامی ضابطۂ اخلاق کے مطابق بلا جواز یکطرفہ طور پر معاہدہ کا ختم کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اسی سورہ کی آیت چار میں فرمایا:

اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ

البتہ جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ جس مدت کے لیے معاہدہ ہوا ہے اسے پورا کرو، بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔

اس کے باوجود مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے جس میں وہ یا تو معاہدہ ختم ہونے کے نتائج کے لیے آمادہ ہو جائیں یا اسلام میں داخل ہو جائیں۔ اس سے اسلام کے اس ضابطہ اخلاق کا علم ہوتا ہے کہ کسی کمزور قوم پر اعلان و مہلت کے بغیر حملہ کرنا بزدلی ہے اور شریفانہ عمل نہیں ہے۔ اگرچہ انہوں نے نقض عہد میں پہل کی ہو تاہم رحمت و ہدایت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کو پھر بھی مہلت دی جائے اور اپنے آخری فیصلہ کے لیے ان پر کوئی غیر انسانی دباؤ نہ ہو۔

چار مہینے کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی جن کے ساتھ معاہدے کی مدت معین نہیں ہے اور جن کے معاہدے میں مدت کا تعین ہو، ان کے ساتھ مقررہ مدت تک معاہدہ برقرار رہے گا۔

۸ھ میں مکہ فتح ہوا۔ اسی سال شوال کے مہینے میں قبائل ہوازن کے ساتھ حنین کی جنگ واقع ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حنین کی فتح کے بعد چند ایام طائف میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لے گئے۔ اسی سال مسلمانوں نے حضرت عتاب بن اسید کی امارت میں حج کیا اور یہ پہلا حج تھا جو اسلامی طریقے پر ہوا اور عتاب بن اسیدؓ اسلام کے پہلے امیر الحاج تھے۔ رسول کریمؐ نے طائف سے واپس تشریف لانے کے بعد رجب تک مدینے میں قیام فرمایا اور رجب ۹ ہجری کو آپ رومیوں کے خلاف جنگ کے لیے تبوک تشریف لے گئے جو رسول کریمؐ کی آخری جنگ ہے۔ تبوک سے واپسی پر آپؐ نے اس سال حج نہیں کیا چونکہ ابھی جزیرۃ العرب کے اطراف میں مشرکین کی معتدبہ تعداد آباد تھی، وہ بھی حج میں شرکت کر رہے تھے۔

اس سال حضرت ابوبکر کو امیر الحاج بنا کر بھیجا اور سورہ براءت کی ابتدائی آیات جو براءت از مشرکین پر مشتمل ہیں ، ان کے حوالے کیں۔ بعد میں حضرت رسولؐ پر جبرئیل نازل ہوئے اور اللہ کا یہ پیغام پہنچایا:

لایؤدی عنک الا انت او رجل منک ۔ (تفسیر ابن کثیر ۲: ۳۳۳)

اعلان برائت کی آپ کی اس ذمہ داری کو یا تو خود آپ بنفس نفیس انجام دیں گے یا ایسا شخص جو آپ سے ہو۔

چنانچہ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ کو اپنی عضباء نامی ناقہ پر روانہ کیا اور فرمایا برائت کی آیات ابو بکر سے لے کر مکہ جاؤ اور اعلان کرو۔ چنانچہ حضرت علیؑ نے حضرت ابو بکر کو جحفہ یا حلیفہ یا فجنان میں سے ایک جگہ پر پا لیا اور رسول اللہؐ کا حکم نامہ دیا تو حضرت ابو بکر مدینہ واپس آ گئے اور رسول اللہؐ سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں ، صرف یہ حکم نازل ہوا ہے کہ اس اعلان کو یا خود میں انجام دوں یا ایسا شخص جو مجھ سے ہو۔

اس مضمون کو مختلف لفظوں میں درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کیا ہے:

۱۔ حضرت علی علیہ السلام، تفسیر ابن کثیر ۲: ۳۳

۲۔ حضرت ابو بکر، مسند احمد ۱: ۳

۳۔ابن عباس، سنن ترمذی ۲: ۱۳۵۔ سنن بیہقی

۴۔ جابر بن عبد اللہ انصاری، سنن دارمی ۲: ۶۷

۵۔ انس بن مالک، سنن ترمذی ۲: ۱۳۵ و مسند احمد ۳: ۲۱۲

۶۔ ابو سعید خدری الدر المنثور ۳: ۲۰۹

۷۔ ابو رافع الدر المنثور ۳: ۲۱۰۔ فتح الباری ۸: ۲۵۶

۸۔سعد بن ابی وقاص، فتح الباری ۸: ۲۵۵۔ الدر المنثور ۳: ۲۰۹

۹۔ ابوہریرہ، سنن دارمی ۲: ۳۳۷

۱۰۔ عبد اللہ بن عمر، فتح الباری ۸: ۲۵۶

۱۱۔ حبشی بن جنادہ، صحیح ترمذی ۲: ۲۱۳

۱۲۔ عمران بن حصین، تذکرۃ سبط ابن الجوزی

۱۳۔ ابو ذر غفاری مطالب السؤل : ۱۸

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر ۶: ۳۳۸۔

تبلیغ کا ابتدائی مرحلہ یہ ہے کہ خود رسول کریمؐ اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچا دیں۔ رسول کریمؐ سے تبلیغ احکام عمل میں آنے اور اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچ جانے کے بعد دوسرا مرحلہ آتاہے۔

پہلا مرحلہ یعنی اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچانا رسول کریمؐ کی رسالت اور ان کا فرض منصبی ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے احکام رسولؐ پر نازل ہوتے ہیں اور رسولؐ ہی یہ احکام لوگوں تک پہنچا ئیں گے۔

دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ جب رسولؐ کی طرف سے تبلیغ احکام کا عمل وجود میں آ گیا اور رسولؐ نے لوگوں میں ایک مرتبہ اعلان کر دیا تو دوسرے مرحلے میں اعلان رسالت سننے والوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں تک بھی یہ احکام پہنچا دیں۔ چنانچہ خود رسول خداؐ تبلیغ احکام کے بعد فرماتے تھے:

فلیبلغ الشاہد الغائب ۔ ( بشارۃ المصطفیٰ ص ۷۰)

حاضرین پر فرض ہے کہ وہ اس حکم کو غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔

برائت از مشرکین کا اعلان پہلے مرحلے میں تھا۔ یعنی خود رسول اللہؐ کا فرض منصبی تھا کہ اس اعلان کو مشرکین تک خود پہنچائیں اور اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو یہ ذمہ داری وہ شخص انجام دے جو رسول اللہؐ کے بعد دوسرے درجے پر ہے۔ چنانچہ نص احادیث میں بھی یہی حکم آیا ہے: لا یؤدی عنک الا انت او رجل منک ۔۔۔۔ یعنی یہ اعلان اس مشن کی پہلی شخصیت کرے یا دوسری شخصیت۔ یہی وہ مقام ولایت ہے جو حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے۔

چنانچہ مسند احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو اعلان براءت کے لیے جانے کا حکم فرمایا تو عرض کیا : یا نبی اللہؐ میں تیز زبان اور خطیب نہیں ہوں تو رسول کریمؐ نے فرمایا:

مابد ان اذھب بھا انا او تذھب بہا انت ۔ (تفسیر العیاشی ۳ : ۷۵)

اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ یا میں خود اسے لے جاؤ ں یا آپ لے جائیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا شخص یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔

مقام افسوس ہے کہ علی علیہ السلام کی اس منزلت کو گھٹانے کے لیے یہ تاویل کی جاتی ہے کہ ایسا صرف عرب جاہلیت کی ایک رسم کی پابندی میں کیا گیا کہ وہ جب عہد توڑتے تھے، خود عہد کرنے والا یا اس کے خاندان کا کوئی فرد معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا کرتا تھا۔ گویا یہ سارا اہتمام اس رسم جاہلیت پر عمل کرنے کے لیے کیا گیا اور جبرئیل بھی وحی لے کر اسی مقصد کے لیے نازل ہوئے۔

ثانیاً اس قسم کی کسی رسم کا ذکر صرف اس جگہ ملتا ہے، اس کا کوئی مدرک بھی نہیں ہے۔

ثالثاً رسولؐ کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی یہ رسم پوری ہو سکتی تھی، صرف علی علیہ السلام پر انحصار نہ کرتے۔

اہم نکات

۱۔ عہد توڑنے والوں کو بھی اسلام اپنی رحمت میں لیتا ہے اور مہلت دیتا ہے: فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۔۔

۲۔ حجت تمام ہونے کے بعد ہی اللہ کافروں کو رسوا کرتا ہے۔ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ ۔


آیات 1 - 2