آیات 78 - 79
 

فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

تفسیر آیات

پہلے بھی ہم نے ذکر کیا ہے:

i۔ اگر لوگ اپنے نبی سے مطالبہ کردہ معجزے کو نہ مانیں تو فوری عذاب آتا ہے۔ قوم صالح نے نبی سے جس معجزے کا مطالبہ کیا تھا، اس کو نہ صرف یہ کہ مانا نہیں بلکہ اسے قتل کر دیا تو عذاب کا فوری طور پر آنا سنت الٰہی ہے۔

ii۔ براہ راست تبلیغ کے لیے نبوت کا سلسلہ بند ہونے کی وجہ سے جرائم پر عذاب الٰہی کی فوری آمد کا سلسلہ بھی بند ہے۔

iii۔ فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ: تباہی کے بعد حضرت صالح (ع) نے اپنی تبلیغ و نصیحت کے ذکر کے ساتھ ناصحوں کے ساتھ جاہلوں کے سلوک کا ذکر فرمایا۔

اہم نکات

۱۔ ناقہ صالح جانور ہونے کے باوجود حجت خدا اور اللہ کا معجزہ ہونے کی وجہ سے اہل زمین کے لیے امان کی علامت تھی۔

۲۔ پوری انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ لوگ ہادیان برحق اور انسانیت کے خیر خواہوں کی معرفت نہیں رکھتے تھے: وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ۔

۳۔ حضرت صالح (ع) کا اپنی ہلاک شدہ امت سے خطاب، اس بات پر دلیل ہے کہ مرُدے سن لیتے ہیں: یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ ۔۔۔۔


آیات 78 - 79