آیات 40 - 41
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

لَہُمۡ مِّنۡ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ غَوَاشٍ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

یَلِجَ:

( و ل ج ) ولوج ۔ داخل ہونے کو کہتے ہیں۔

سَمِّ:

( س م م ) اَلسَّمُّ تنگ سوراخ، جیسے سوئی کی ناک اور کان کا سوراخ ۔

غَوَاشٍ:

( غ ش و ) اوڑھنا۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ: کفار کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کا مطلب ممکن ہے یہ ہو کہ ان کے اعمال قبول نہیں ہوں گے کیونکہ عمل صالح کے بارے میں فرمایا:

اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۱۰)

پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے۔

اس تفسیر کے مطابق ممکن ہے آیت کا مطلب یہ بنے کہ دنیا میں ان کافروں کے اعمال اور دعا وغیرہ کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور آخرت میں ان لوگوں کا جنت میں جانا بعید از امکان ہے۔

ممکن ہے کہ آسمان کے دروازے نہ کھلنے کا مطلب جنت میں داخل نہ ہونا ہو۔ اس تفسیر کے مطابق وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ کا جملہ پہلے جملے کے لیے وضاحتی جملہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ: الۡجَمَلُ اونٹ کو کہتے ہیں۔ اور الجُمَّل حرف جیم پر پیش اور میم پر شد کے ساتھ موٹے رسے کو کہتے ہیں۔ ابن عباس کی ایک قرائت میں یہی تلفظ آیا ہے اور الجُم صرف جیم کے پیش اور میم کے شد کے بغیر بھی ایک تلفظ ہے جو موٹے رسے کو کہتے ہیں۔

بعض اہل تحقیق کا موقف یہ ہے کہ اونٹ اور سوئی کے ناکے میں کوئی مناسبت نہیں ہے، لہٰذا الجُمَّل سے رسا مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔

ہمارا موقف ہے کہ اول تو اس موقف کے لیے مشہور قرائت کو چھوڑ کر ابن عباس کی قرائت کو اختیار کرنا پڑے گا اور قرائت الجَمَل کے ساتھ رسا مراد لینا درست نہیں ہے۔

ثانیاً: اونٹ مراد لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہاں سوئی کا ذکر کسی چیز کے سینے اور جوڑنے کے لیے نہیں ہو رہا کہ رسا زیادہ مناسب ہو بلکہ یہاں کافروں کے جنت میں جانے کو بعید از امکان بتانا مقصود ہے۔ چونکہ سوئی کے چھوٹے سے سوراخ سے اونٹ جیسے بڑے حیوان کا گزرنا محال ہے، لہٰذا یہاں پر جمل سے اونٹ مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ چنانچہ عرب محاورہ ہے: لا افعل حتی یشیب الغراب یبیض القار ۔ میں اس کام کو کوئے کے سفید ہونے اور تارکول کے سفید چمکدار ہونے تک نہیں کروں گا۔ شاعر نے کہا ہے:

اذا شاب الغراب اتیت اھلی

وصار القاد کاللبن الحلیب

جب کوا سفید ہو جائے اور تارکول دودھ جیسا ہو جائے اس وقت میں گھر والوں کے پاس جاؤں گا۔

یعنی کسی بات کو بعید از امکان بتانا مقصود ہو تو یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں کافروں کا جنت میں جانا اسی طرح عدل الٰہی کے منافی اور ناممکن ہے، جس طرح اونٹ جیسی عظیم الجثہ چیز کا سوئی کے ناکے سے گزرنا عملاً ناممکن ہے۔

اہم نکات

۱۔جس طرح مؤمن کا جہنم میں داخل ہونا محال اور عدل الٰہی کے خلاف ہے، اسی طرح کافر کا جنت میں داخل ہونا بھی اللہ کے حتمی فیصلہ کے خلاف اور نا ممکن ہے۔


آیات 40 - 41