آیات 35 - 36
 

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر آیات

قوموں کی اجل اور مقررہ مدت کے ذکر کے بعد انبیاء کی تصدیق و تکذیب کرنے والوں کا ذکر آیا ہے۔

فَمَنِ اتَّقٰی : انبیاء علیہم السلام ان کی طرف دستور حیات لے کر جب آئے تو اس دستور پر عمل کرنے والے امن و آشتی اور نجات و فلاح کی زندگی کریں گے۔

پس جو تکذیب رُسُلٌ سے اپنے آپ کو بچائے اور وَ اَصۡلَحَ نیک عمل بھی کرے تو اس صورت میں ان کے لیے کوئی خوف اور غم نہ ہو گا۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا: تکذیب، تکبر و سرتابی کرنے والے ناکام و نامراد ہوں گے۔ چنانچہ قریش، بنی ہاشم کے ایک یتیم کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یہود عربوں کی اتباع کو عار سمجھتے تھے اور دیگر اقوام نژادی تکبر کے حوالے سے اسلام کو نہیں مانتی تھیں۔

اہم نکات

۱۔ تقویٰ و اصلاح ہی دارین میں ذریعۂ امن ہیں: فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔

۲۔ تکبر، کفر و تکذیب اور ظلم کا اصلی سرچشمہ ہے: کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا ۔۔۔۔


آیات 35 - 36