آیت 6
 

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾

۶۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما۔

تشریح کلمات

ہدایت:

( ھ د ی ) مہر و محبت سے رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلا معاوضہ اور خلوص و محبت سے دیا جانے والا تحفہ ہدیہ کہلاتا ہے۔

صراط:

( ص ر ط ) اس کا لغوی معنی ’’نگلنا‘‘ ہے۔ صحیح راہ پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ راستہ قوت جاذبہ و ہاضمہ کی طرح سالکین کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں اپنا جزو بنا لیتا ہے۔ اسی لیے صحیح راستے کو صراط کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، اس کی ربوبیت اور روز جزا کے اعتراف اور عبادت و استعانت کا صحیح تصور قائم کرنے کے بعد انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ کیونکہ انسان عبث نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع ہدف کے لیے خلق ہوا ہے۔ اب خا لق پر لازم ہے کہ اس اعلیٰ ہدف کی طرف اس کی رہنمائی بھی کرے۔ بنا بر ایں خالق کائنات نے خلقت سے پہلے ہدایت کا انتظام فرمایا:

لَوْ لَاکَ لَمَاْ خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ۔ (تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۳۰)

اے محمد (ص)! اے پیکر ہدایت! اگر میں نے انسانوں کی رہنمائی و ہدایت کے لیے تجھے نہ چنا ہوتا تو میں افلاک کو پیدا ہی نہ کرتا۔

صراط سے حرکت اور روانی کا تصور بھی قائم ہو جاتا ہے۔ یعنی مومن قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھ رہا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ﴿﴾ (۸۴ انشقاق : ۶)

اے انسان! تو مشقت اٹھا کر یقینا اپنے رب کی طرف جانے والاہے پھر اس سے ملنے والاہے۔

مستقیم سے اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے کہ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے، کیونکہ ’’صراط مستقیم‘‘ کے مقابلے میں ’’صراط منحرف‘‘ ہے جس سے بچنے کے لیے ہدایت،راہنمائی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اگلی آیت سے یہ بات واضح ہو گی کہ مغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں سے بچ کر صراط مستقیم کی تلاش اور پھر اس کی حفاظت اور اس پر پابند رہنا کوئی آسان کام نہیں۔

اَوَّلُ مٰا خَلَق اللہُ نُوریٖ ۔ (بحار الانوار ۱ : ۹۷ و ۱۵ : ۲۴۔ عوالی اللآلی ۴: ۹۹) اس کائنات میں اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی (ص) کو خلق فرمایا تاکہ راہ ارتقا کے متلاشی اس نور کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکیں۔

اعتراض: ہدایت کی طلب اور خواہش سے تو گمان ہوتا ہے کہ بندہ ابھی ہدایت یافتہ نہیں ہوا۔

جواب: اللہ تعالیٰ کی ذات سر چشمۂ فیض ہے۔ اس کی عنایات غیر منقطع ہوتی ہیں:

عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ﴿﴾ (۱۱ہود : ۱۰۸)

وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی.

اور اللہ کی جانب سے فیض کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا: لَا اِنْقِطَاعَ فِی الفَیْضِ ۔ دوسری طرف سے بندہ سراپا محتاج ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سر چشمۂ فیض سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہدایت، رہنمائی اور توفیق اس کے فیوضات ہیں، جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں اور بندہ ہر آن جن کا محتاج ہے۔ ہدایت ایسی چیز نہیں جو خدا کی طرف سے اگر ایک بار مل جائے تو پھر بندہ بے نیاز ہو جاتا ہے، بلکہ وہ ہر آن، ہر لمحہ ہدایت الٰہی کا محتاج رہتا ہے۔

بندے کا ہر آن ہر لمحہ اللہ کی رحمت و ہدایت کا محتاج ہونا اس دعائیہ جملے سے واضح ہو جاتا ہے، جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام اپنی دعاؤں میں نہایت اہتمام کے ساتھ کیا کرتے تھے:

رَبِّ لَا تَکِلْنِیْ الیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَدًا ۔ (اصول الکافی ج ۲ ص ۵۸۱)

میرے مالک! مجھے کبھی بھی چشم زدن کے لیے اپنے حال پر نہ چھوڑ۔

بھلا جس سے اللہ نے ہاتھ اٹھایا ہو اسے کون ہدایت دے سکتا ہے:

فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿﴾ (۴۵جاثیہ: ۲۳)

پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اسی آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:

اَدِمْ لَنَا تَوفِیقَکَ الَّذِی بِہِ اَطَعْنَاکَ فِی مَاضِیِّ اَیَامِنَا حَتَّی نُطِیْعَکَ کَذَلِکَ فِی مُسْتَقْبِلِ اَعْمَارِنَا ۔ (بحارالانوار ۲۴ :۹۔ أیْ أدِمْ لنا توفیقک الذی بہ اطعناک ۔۔۔ تفسیر امام حسن عسکریؑ ص ۴۴)

خداوندا! اپنی عطا کردہ توفیق کو برقرار رکھ، جس کی بدولت ہم نے ماضی میں تیری اطاعت کی ہے، تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں۔

دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہدایت کے درجات ہوتے ہیں اور ہر درجے پر فائز مسلمان بالاتر درجۂ ہدایت کے لیے دعا کر سکتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ﴿﴾ (۴۷ محمد : ۱۷)

جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انہیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔

اہم نکات

۱۔ بندے کواللہ تعالیٰ کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت، ہدایت کے مسئلے میں ہوتی ہے۔

۲۔ مومن کا تصور حیات، راہ مستقیم کی رہنمائی کے لیے دعا کرنے سے ہی متعین ہوتا ہے۔

۳۔ مومن انسان اپنی زندگی کی ایک منزل مقصود رکھتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی ضروری ہے۔

۴۔ انسان مومن، متحرک اور رواں دواں ہوتا ہے، اس لیے اسے ہر آن رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیو نکہ اگر انسان جمود و سکوت کی حالت میں ہو تو اس کے لیے کسی رہنمائی کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔


آیت 6