آیات 33 - 34
 

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۚ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۳۴﴾

۳۴ ۔ سوائے ان لوگوں کے جو تمہارے قابو آنے سے پہلے توبہ کر لیں اور یہ بات ذہنوں میں رہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

شان نزول

کافی میں روایت ہے کہ بنی ضبّہ کے کچھ لوگ بیماری کی حالت میں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول خدا ؐنے ان سے فرمایا: ہمارے ہاں قیام کرو،صحت یاب ہونے پر میں تمہیں ایک دستہ کے ہمراہ بھیجوں گا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر کسی جگہ رکھیں۔ حضورؐ نے انہیں زکوٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ ان کا دودھ پئیں۔ چنانچہ وہ شفایاب ہوئے تو ان لوگوں نے ان تین افراد کو قتل کر دیا جو اونٹوں پر مامور تھے۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) کو یہ خبر ملی تو حضرت علی علیہ السلام کو روانہ کیا اور یمن کی سر زمین کے نزدیک سے ان کو اسیر کرکے لایا گیا۔ اس واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (الکافی ۷: ۲۴۶)

تفسیر آیات

۱۔ خدا اور رسول سے لڑائی اور فساد فی الارض کا مطلب اس کے وضع کر دہ نظام اور قانون کی پامالی ہے جب کہ ربا کے بارے میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿﴾ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ۔۔ (۲ بقرہ: ۲۷۸۔۲۷۹)

اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔

یعنی اس قانون کی خلاف ورزی اللہ و رسول ؐکے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہونے کی وجہ سے اللہ اور اس کا رسولؐ بھی اس کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔

فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا: سے مراد امن عامہ میں خلل پید اکرنا اور اسلحہ کی برملا نمائش کرتے پھرنا ہے، جس سے ہر شخص کی جان خطرے میں پڑ جائے اور قتل و غارت، رہزنی و ڈکیتی اس میں شامل ہیں۔

۲۔ ایسے لوگوں کے لیے جو متعدد سزائیں آیت میں مذکور ہیں، ان کی تفصیل فقہی کتابوں میں مذکور ہے اور احادیث میں بھی ان کا تفصیلی ذکر ہے۔

۳۔ ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ مثلاً دائیں طرف کا پاؤں اور بائیں طرف کا ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ یعنی ایک جانب کا پاؤں ہو تو ہاتھ دوسری جانب کا ہو۔

۴۔ملک بدری سے مراد جس شہر میں وہ رہتا ہے، اس سے دوسرے شہر کی طرف شہر بدری ہے۔

۵۔ یہ سزائیں اس وقت معاف ہو سکتی ہیں جب مجرم گرفتار ہونے اور گواہ بیان دینے سے پہلے توبہ کر لیں۔ گرفتاری عمل میں آنے اور گواہی دینے کے بعد حد ساقط نہیں ہو سکتی۔

احادیث

کافی میں حضرت علی رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

اگر وہ اللہ اور رسول سے لڑائی کرتا اور زمین پر فساد پھیلاتا ہے اور قتل کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ اگر قتل کے ساتھ ڈکیتی بھی کرتا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا اور سولی بھی چڑھایا جائے گا ۔ اگر ڈکیتی کرے اور قتل نہ کرے تو اس کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں گے اور اگر وہ تلوار اٹھا کر پھرتا ہے اور قتل و ڈکیتی نہیں کرتا تو اسے ملک بدر کیا جائے گا۔۔۔۔ الی آخر ۔ (الکافی ۷:۲۴۶)


آیات 33 - 34