آیت 4
 

مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾

۴۔ پس پردہ رہ کر وسوسہ ڈالنے والے (ابلیس) کے شر سے،

تشریح کلمات

الۡوَسۡوَاسِ:

( و س و س ) آہستہ آواز کو کہتے ہیں۔ یہ بار بار کسی کے ذہن میں کوئی بری بات ڈالنے کے معنوں میں ہے۔

الۡخَنَّاسِ:

( خ ن س ) خنوس سے ہے جو ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آگے آنے پھر پیچھے ہٹنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

الۡخَنَّاسِ: شیطان کے وسوسہ سے، جو آگے آتا ہے پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے پھر آگے آتا ہے۔ وہ اس انتظار میں کمین گاہ میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کسی طرح انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دی جائیں۔ وہ اس تاک میں ہوتا ہے کہ مومن پر خواہشات، غصہ، حسد، جیسی چیزیں اثر انداز ہوں تو وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر انسان کو ورغلائے، اس کی عقل پر پردہ ڈال دے اور اسے توجیہات اور تاویلات میں ڈال دیتا ہے یا آرزوؤیں اور امیدیں دلا کر اپنا جال بچھاتا ہے:

وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ۔۔۔ (۴ نساء: ۱۱۹)

اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور اپنی آرزؤں میں مبتلا کروں گا اور انہیں حکم دوں گا۔

یہ بات ہم نے بیشتر دیکھی ہے کہ دیانتدار لوگ جب کسی خلاف شریعت کام کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کے جواز کے لیے طرح طرح کی توجیہات کرتے ہیں۔ یہی توجیہات جو انسان کے ذہن میں آتی ہیں وسوسۂ خناس ہیں۔

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۳۶)

اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

اگر وہ شیطان کے جال میں پھنسے تو اللہ اس کے لیے راہیں کھولتا ہے:

ا ِاِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمۡ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ﴿﴾ ( ۷ اعراف: ۲۰۱)

بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آ جاتی ہے۔

حدیث نبوی ہے:

ان الشیطان واضع خطمہ علی قلب ابن آدم فاذا ذکر اللہ سبحانہ خنس و اذا نسی التقم قلبہ فذلک وسواس الخناس۔ ( بحار ۶۰: ۱۹۴)

شیطان اپنا قدم انسان کے قلب پر رکھتا ہے اگر اس نے اللہ کو یاد کیا تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اگر ذکر خدا بھول گیا تو وہ اس شخص کا قلب نگل لیتا ہے۔ یہی وسوسہ خناس ہے۔


آیت 4