آیات 4 - 5
 

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾

۴۔ فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔

سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ ٪﴿۵﴾

۵۔ یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ: اس آیت میں شب قدر کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دینے کی وجہ کا بیان ہے کہ اس رات فرشتے اور روح زمین پر بسنے والوں کے لیے’’ہر امر‘‘ لے کر نازل ہوتے ہیں۔ وہ امرکیا ہے جسے لے کر یہ فرشتے نازل ہوتے ہیں؟ اسے سورہ دخان میں بیان فرمایا ہے:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ﴿﴾ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ﴿﴾ اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ اِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ ﴿﴾ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿﴾ ( ۴۴ دخان: ۳ تا ۶)

ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، یقینا ہم ہی تنبیہ کرنے والے ہیں۔ اس رات میں ہر حکیمانہ امر کی تفصیل وضع کی جاتی ہے۔ ایسا امر جو ہمارے ہاں سے صادر ہوتا ہے (کیونکہ) ہمیں رسول بھیجنا مقصود تھا۔ (رسول کا بھیجنا) آپ کے پروردگار کی طرف سے رحمت کے طور پر، وہ یقینا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

کہ اس رات ہر حکیمانہ امر کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یُفۡرَقُ کے معنی ہیں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿﴾ (۵ مائدہ: ۲۵)

ہمارے اور فاسق قوم کے درمیان فیصلہ فرما۔

اور قرآن کو فرقان کہتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والی کتاب۔

لہٰذا یہ بات قرآن سے واضح ہوجاتی ہے کہ یہ فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ امور کے فیصلے یعنی سال بھر کے مقدرات کے فیصلے لے کر نازل ہوتے ہیں۔

۲۔ وَ الرُّوۡحُ: روح سے مراد بعض جبرائیل لیتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے الروح کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا جبرئیل ہیں؟ فرمایا:

جبرائیل من الملائکۃ و الروح اعظم من الملائکۃ۔ (تفسیر البرھان)

جبرئیل فرشتوں میں شامل ہیں اور روح فرشتوں سے زیادہ عظیم ہے۔

روح کے جدا ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جدا مستقل وجود ہے اور تنظیم مقدرات میں اللہ تعالیٰ کے اہم کارندوں میں سے ہے۔ احادیث کے مطابق روح کی اہمیت ملائکہ سے زیادہ ہے۔

قرآن مجید میں فرشتوں کے ساتھ وَ الرُّوۡحُ کا ذکر دو اور مقامات پر آیا ہے:

تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ﴿﴾ (۷۰ معارج: ۴)

ملائکہ اور روح اس کی طرف اوپر چڑھتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا۔۔۔۔ (۷۸ نباء: ۳۸)

اس روز روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے۔

اس طرح قرآن مجید میں جہاں وَ الرُّوۡحُ بغیر کسی اضافے کے مذکور ہے اس سے مراد ایک ایسی طاقت ہے جو فرشتوں سے بھی بالاتر ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادوں کے نفاذ میں ایک اہم کردار کی مالک ہے۔ واللہ اعلم بمخلوقاتہ۔

۳۔ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ: اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں، اذن سے مراد یہاں امر اور حکم ہی ہے۔ جیسے فرمایا:

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۹۷)

آپ کہدیجیے: جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہے (وہ یہ جان لے کہ) اس نے (تو) اس قرآن کو باذن خدا آپ کے قلب پر نازل کیا۔

آیت میں بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ سے مراد بامر اللّٰہ ہی ہو سکتا ہے۔

یہاں اذن سے مراد عدم المانع یا بعلمہ لینا سیاق آیت کے مطابق نہیں ہے۔

۴۔ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ: میں امر سے مراد وہ امر ہے جس کی جمع امور ہے۔ یعنی ہر بات، ہر معاملہ۔ وہ امر مراد نہیں ہے جس کی جمع اوامر آتی ہے اور مِنۡ اس صورت میں سب بیان کرنے والے لام کے معنوں میں ہے یعنی لاجل کل امر۔ امر کی تشریح اسی آیت کے ذیل میں ہو چکی ہے۔

۵۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ: یہ رات سلامتی کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے علاوہ نامطلوب چیز کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انسان اللہ کی رحمتوں کے حصول میں کامیاب ہو رہا ہو گا۔ شیطان کو بندوں کو گمراہ کرنے کا موقع فراہم نہیں ہو گا چونکہ فرشتے اس رات میں خیر، سلامتی اور برکتیں لے کر نازل ہو رہے ہوں گے۔

شب قدر کا تعین

شب قدر کی انتہائی اہمت کے پیش نظر اس کا تعین نہیں فرمایا تاکہ اسے تلاش کرنے والے متعدد راتوں میں اسے تلاش کریں جس سے اس شب کو حاصل کرنے میں خلوص رکھنے والے اور اسے اہمیت دینے والے ہی تلاش کریں گے۔

احادیث امامیہ میں کثرت سے وارد ہے کہ شب قدر کو انیس، اکیس اور تیئس رمضان کی راتوں میں تلاش کریں۔ ان راتوں میں شبِ ۲۳ رمضان کی زیادہ تاکید ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

۱۹، رمضان کی شب تقدیر بنتی ہے۔ ۲۱ کی شب حتمی فیصلہ ہوتا ہے اور ۲۳ کی شب کو نافذ العمل ہوتا ہے۔ (الکافی)

موطأ میں امام مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:

فمن اراد ان یقوم من الشھر شیئا فلیقم لیلۃ ثلاث و عشرین۔

اگر کوئی اس ماہ میں رات کو قیام کرنا چاہتا ہے تو ۲۳ ویں رات کو قیام کرے۔

صحیح مسلم میں عبد اللہ بن انیس راوی ہیں:

میں نے ۲۳ ویں کی صبح رسول اللہؐ کی پیشانی پر پانی اور خاک (کے آثار ) دیکھے۔

صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں:

میں نے ۲۱ رمضان کی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی اور ناک مبارک پر مٹی اور پانی کے اثرات دیکھے۔

صحیح مسلم اور بیہقی میں ہے عبد اللہ بن انیس سے شب قدر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے:

التمسوھا اللیلۃ و تلک اللیلۃ لیلۃ ثلاث و عشرین۔

شب قدر کو رات میں تلاش کرو وہ رات ۲۳ویں کی رات ہے۔

بعض احادیث میں ہے لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوںمیں تلاش کرو۔ بعض دیگر احادیث میں ہے رمضان کے آخری عشرے کی تاک راتوں میں تلاش کرو۔ ان تمام احادیث میں ۲۱ اور ۲۳ کی راتیں شامل ہیں۔

ابو نضر جہنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی: میرا گھر مدینہ سے دور ہے۔ میرے لیے ایک رات کی نشاندہی فرمائیں جس میں، میں مدینہ آؤں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انزل لیلۃ ثلاث و عشرین

۲۳ویں کی رات کو مدینہ آ جاؤ۔

ملاحظہ ہو سنن بیہقی، موطا، الدالمنثور اور من لایحضرہ الفقیہ ۲: ۱۶۰۔ چنانچہ ۲۳ ویں کی رات لیلۃ الجھنی سے مشہور ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ مصادر میں شب قدر تین راتوں ۱۹، ۲۱، ۲۳ میں تلاش کرنے کا حکم ہے اور احادیث بکثرت موجود ہیں کہ شب قدر ان تین راتوں میں منحصر ہے۔

مگر اہل سنت کے مصادر میں شب قدر کے بارے میں اس قدر اختلاف اور اقوال ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ البتہ ان کے علماء نے ۲۷ ویں کی شب کو ترجیح دی ہے۔

شب قدر میں فرشتے کس پر نازل ہوتے ہیں؟

روایت ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ابن عباس سے فرمایا:

ِانَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی کُلِّ سَنَۃٍ وَ اِنَّہُ یَنْزِلُ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ اَمْرُ السَّنَۃِ وََ لِذَلِکَ الْاَمْرِ وُلَاۃً بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَنْ ھُمْ؟ قَالَ: اَنَا وَ اَحَدَ عَشَرَ مِنْ صُلْبِی اَئِمَّۃٌ مُحَدَّثُونَ۔ (الکافی ۱: ۵۳۲)

شب قدر ہر سال ہوتی ہے اور اس رات میں سال بھر کا امر نازل ہوتا ہے اور اس امر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چند ایک والی ہیں۔ ابن عباس نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ میں ہوں اور میرے گیارہ فرزند۔ یہ سب ائمہ ہیں اور مُحَدَّث ہیں۔

واضح رہے مُحَدَّث اس ہستی کو کہتے ہیں جس سے ملائکہ باتیں کرتے ہیں اور دکھائی نہیں دیتے۔ بعض شخصیات اہل سنت کے نزدیک ایسی ہیں جو محدث ہیں۔

شیعہ امامیہ کے نزدیک ان کے بارہ ائمہ علیہم السلام اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا مُحَدَّث ہیں۔ یعنی ان سے فرشتے کلام کرتے تھے اور دکھائی نہیں دیتے تھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا:

اِنَّہُ لَیَنْزِلُ فِی لَیْلَۃِِ الْقَدْرِ اِلَی وَلِیَّ الْاَمْرِ تَفْسِیرُ الْاُمُور سَنَۃً سَنَۃً۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۲۴۸)

شب قدر میں ولی امر کی طرف سال بہ سال کے امور کی تشریح نازل ہوتی ہے۔

مروی ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال ہوا: کیا آپ کو شب قدر کا علم ہو سکتا ہے کہ کون سی رات ہے؟ آپ نے فرمایا:

کیف لا نعرف و الملائکۃ یطوفون بنا بھا۔ (بحارالانوار ۹۴:۱۴۔ تفسیر قمی ذیل آیت)

اس رات کی پہچان کیسے نہیں ہو سکتی جب کہ اس شب فرشتے ہمارے گرد موجود رہتے ہیں۔


آیات 4 - 5