آیت 4
 

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾

۴۔ بتحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔

تشریح کلمات

کَبَدٍ:

( ک ب د ) جگر کو کہتے ہیں۔ الکبد کے معنی مشقت کے بھی آتے ہیں۔ العین میں آیا ہے: الکبد: شدۃ العیش۔ زندگی کی سختیوں کے معنی میں آتا ہے۔

تفسیر آیات

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ: یہ بظاہر جواب ہے ان قسموں کا جن کا ذکر اس سورہ مبارکہ کے شروع میں فرمایا۔ یعنی قسم ہے اس شہر مکہ کی اور قسم ہے والد اور اولاد کی، ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی جفاکشی اور مشقت میں مضمر ہے بلکہ ہر انسان کے لیے اس دنیا کی زندگی اللہ نے عیش و آرام کے لیے قرار نہیں دی۔ انسان کے جسم کی ساخت بھی مشقت مانگتی ہے۔ مشقت نہ کرے تو جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ تسخیر طبیعت کے بغیر انسان اپنے لیے سامان زیست فراہم نہیں کر سکتا۔ یہ کام بھی مشقت و جفاکشی سے ممکن ہے۔ اگر کسی کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہر قسم کے دکھ درد سے دور خوش و خرم زندگی گزارتا ہے، یہ نہایت سطحی نظر ہے۔ ہو سکتا ہے یہ شخص اپنے اندر آتش میں جل رہا ہو۔

اس کائنات پر حاکم نظام قدرت میں ہے کہ انسان مشقت و جفاکشی میں زندگی گزارے چونکہ یہاں کسی چیز کا حصول اس کے علل و اسباب کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ گندم کا ایک دانہ حاصل کرنے کے لیے متعدد علل و اسباب عبور کرنا پڑتے ہیں۔ یہ عبور کرنا مشقت سے عبارت ہے۔


آیت 4