آیت 6
 

یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾

۶۔ اس دن تمام انسان رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

تفسیر آیات

یعنی لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو رب العالمین کی بارگاہ عدالت میں اپنی پوری زندگی کا حساب دینے کے لیے حاضر ہونا ہو گا۔

اسی لیے احادیث میں انتہائی تاکید ہے کہ پہلے احکام تجارت میں کافی معلومات حاصل کرو پھر تجارت کرو۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے آپ ؑنے منبر سے فرمایا:

ی َا مَعْشَرَ التُّجَّارِ الْفِقْہَ ثُمَ الْمُتْجَرَ الْفِقْہَ ثُمَّ الْمُتْجَرَ الْفِقْہَ ثُمَّ الْمُتْجَرَ۔۔۔۔ (الکافی۵: ۱۵۰)

تاجر پیشہ لوگو! پہلے فقہ پھر بازار۔ پہلے فقہ پھر بازار۔ پہلے فقہ پھر بازار۔

آگے فرمایا:

التَّاجِرُ فَاجِرٌ وَ الْفَاجِرُ فِی النَّارِ اِلَّا مَنْ اَخَذَ الْحَقَّ وَ اَعْطَی الْحَقَّ۔ (الکافی۵: ۱۵۰)

تاجر عام طور پر فاجر ہوتا ہے اور فاجر آتش میں ہے مگر یہ کہ حق لے اور حق دے دے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

خمس بخمس پانچ کے بدلے پانچ، لوگوں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا:

i۔ عہد شکنی کی صورت میں دشمن مسلط ہو گا۔

ii۔ اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنے سے تنگدستی آئے گی۔

iii۔ جب بھی فحش کاری عام ہو گی تو موت عام ہو جائے گی۔

iv۔ ناپ تول میں کمی کرنے سے خشک سالی اور قحط آئے گا۔

v۔ زکوۃ نہ دینے سے بارش نہ ہو گی۔ (بحار الانوار ۷۰: ۳۷۰۔ الکشاف ۴: ۷۱۸)


آیت 6