آیات 6 - 8
 

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾

۶۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم رب کے بارے میں دھوکے میں رکھا؟

الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ جس نے تجھے پیدا کیا پھر تجھے راست بنایا پھر تجھے معتدل بنایا۔

فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ﴿۸﴾

۸۔ اور جس شکل میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ: اے انسان! اے ضمیر و جدان کے مالک! اے صاحب عقل و شعور!

۲۔ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ: اس ذات کے بارے میں تجھے کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟ جو تیرا رب ہے، تیرا مالک ہے۔ جس کے قبضۂ قدرت میں تیری جان ہے وہ تیرا رب ہے۔ ہر آن تو اس کا محتاج ہے۔ وہ تیرا رب ہے تجھ تک ہر آن اس کا فیض پہنچ رہا ہے۔

۳۔ الۡکَرِیۡمِ: وہ رب جو صاحب احسان و انعام ہے، جو تجھ پر لگاتار احسان کر رہا ہے، تجھ پر تیری ضرورت سے زیادہ احسان فرما رہا ہے۔ اس رب کریم کے بارے میں تجھے کس چیز نے دھوکے میں رکھا:

وہ تجھے نجات کی طرف دعوت دے رہا ہے تو اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔

وہ تجھ سے محبت کرتا ہے لیکن تجھے اس سے نفرت ہے۔

وہ تجھ پر احسان کرنا چاہتا ہے مگر تو اسے قبول یہ نہیں کرتا۔

وہ تجھے نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے تو اس کی نافرمانی میں کمال کرتا ہے۔

وہ تجھے ہلاکتوں سے بچاتا ہے تو اس کے ساتھ بغاوتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

وہ تجھے ہر قسم کے خوف سے بچائے رکھتا ہے مگر تو ہر قسم کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔

وہ تجھے عزت و توقیر سے نوازتا ہے تو اس کی ناقدری کرتا ہے۔

وہ تیری توبہ قبول کرنے کے لیے حاضر ہے مگر تو اس کی طرف رخ نہیں کرتا۔

وہ تجھے اپنی رحمتوں کی طرف بلاتا ہے تو اس کے عذاب کی طرف بھاگتا ہے۔

تجھے ایسے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟

۴۔ الَّذِیۡ خَلَقَکَ: پھر وہ رب کریم ہونے کے ساتھ ساتھ تیرا خالق ہے۔ تو اگر مشرک ہے تو بھی اللہ کو تو خالق تسلیم کرتا ہے کہ اس نے عدم سے تجھے وجود دیا ہے۔

۵۔ فَسَوّٰىکَ: خلق وایجاد کے بعد تجھے راست بنایا۔ تیرے بیرونی و داخلی اعضاء کو درست اپنی اپنی جگہ پر رکھا۔ چنانچہ کسی عضو کے نامناسب جگہ پر ہونے کی وجہ سے انسان کو مشکلات سے دو چار ہونا نہیں پڑتا۔

۶۔ فَعَدَلَکَ: پھر ان اعضاء میں سے کوئی عضو کسی اور عضو سے متصادم نہیں ہے بلکہ ہر عضو دوسرے عضو کے لیے معاون ہے۔ مثلاً ایک لقمہ، شکم تک پہنچانے میں بیرونی و داخلی اعضاء ایک محیر العقل ہمآہنگی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ کوئی عضو ایسا نہیں جو اس لقمے کے اپنے مقصد تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتا ہو۔

چنانچہ داخلی اعضا ایک دوسرے سے مل کر اس لقمے کو خون اور خون کو خلیہ (Cell) تعمیر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اعضاء اور داخلی قوتوں میں اور سیلز (Cell) کی کارکردگی میں کسی جگہ تعادل اور اعتدال میں خلل نہیں آتا۔

۷۔ فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ: چنانچہ ایک ایسی مخلوق وجود میں آتی ہے جو اپنی شکل و صورت میں بھی اپنے خالق کا معجزہ ہے۔ فرمایا:

وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ۔۔۔۔ (۶۴ تغابن: ۳)

اور اس نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی۔

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿﴾ (۹۵ تین: ۴)

بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

ان تمام باتوں کے باوجود کیا تمہارا رب اور تمہاری زندگی کی تدبیر کرنے والا اللہ نہیں ہے؟ خلق و تدبیر ناقابل تفریق ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان آیات سے اپنی ربوبیت پر استدلال فرماتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ تجھے اپنے کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غرّہ جھلہ اسے اس کی جہالت نے دھوکے میں رکھا۔ (مجمع البیان فی تفسیر القرآن ۱۰: ۶۸۲ ذیل آیہ)


آیات 6 - 8