آیت 40
 

اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰکُمۡ عَذَابًا قَرِیۡبًا ۬ۚۖ یَّوۡمَ یَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ ہم نے تمہیں قریب آنے والے عذاب کے بارے میں تنبیہ کی ہے، اس روز انسان ان تمام اعمال کو دیکھ لے گا جو وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا ہے اور کافر کہ اٹھے گا: اے کاش! میں خاک ہوتا۔

تفسیر آیات

۱۔ عَذَابًا قَرِیۡبًا: عذاب قریب اس طرح ہے کہ کافر کو اگر حیات برزخی نہیں ملتی تو اس کے لیے مرنے کا دن ہی روز قیامت ہو گا۔ ادھر مر گیا، قیامت برپا ہو گئی:

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ: ۵۲)

کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟

اگر کافر بڑا مجرم ہے تو حیات برزخی ہو گی اور اس کے مرنے کے فوری بعد عذاب شروع ہو جائے گا جو عذاب آخرت کے ساتھ متصل ہو گا۔

۲۔ یَّوۡمَ یَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ: وہ قیامت کے دن اپنے اعمال کا مشاہدہ کریں گے جو دنیوی زندگی میں آگے بھیج چکے ہیں۔ یہ آیت تجسم اعمال پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کاعمل بذات خود موجود رہتا ہے اور آخرت میں وہ اپنے عمل کا مشاہدہ کریں گے۔ عمل اچھا ہے تو وہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا مگر یہ کہ وہ ایسا عمل انجام دے کہ اس کا عمل حبط ہو جائے اور اگر عمل بُرا ہے وہ اس کی جان نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اللہ عفو اور مغفرت کے ذریعے اس کا اثر ختم کر دے۔

۳۔ وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا: اس روز کافر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میں خاک ہی رہ جاتا اور شعور کا مالک نہ بنتا ۔ آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔


آیت 40