آیات 11 - 15
 

ذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ مجھے اور اس شخص کو (نبٹنے کے لیے) چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا،

وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور میں نے اس کے لیے بہت سا مال دیا،

وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور حاضر رہنے والے بیٹے بھی،

وَّ مَہَّدۡتُّ لَہٗ تَمۡہِیۡدًا ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور میں نے اس کے لیے (آسائش کی) راہ ہموار کر دی،

ثُمَّ یَطۡمَعُ اَنۡ اَزِیۡدَ﴿٭ۙ۱۵﴾

۱۵۔ پھر وہ طمع کرنے لگتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔

تفسیر آیات

یہاں سے آگے آیات ۳۰ تک ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت کا بھرپور انداز میں آغاز کیا اور قرآن مسلسل سنانا شروع فرمایا تو قریش میں بے چینی بڑھ گئی اور مخالفتیں بھی تیز تر ہو گئیں۔ جب حج کا زمانہ آ گیا تو انہیں یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ محمدؐ حج کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لیے قریش کے سرداروں نے ایک اجتماع میں طے کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ایک تحریک شروع کی جائے۔ ولید بن مغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ ہمیں ایک بات پر اتفاق کرنا چاہیے ورنہ مختلف باتوں سے ہمارا اعتبار چلا جائے گا۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم سب اتفاق کر کے انہیں کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا یہ کاہن نہیں ہیں، نہ ان کی باتیں کاہنوں سے ملتی ہیں۔ کچھ اور لوگوں نے کہا ہم انہیں مجنون کہیں گے۔ ولید نے کہا وہ مجنوں بھی نہیں ہیں۔ کچھ اور لوگوں نے کہا ہم انہیں شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ہم شعر کو اچھی طرح جانتے ہیں، محمد کا کلام شعر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بات بھی محمد پر چسپاں نہ ہو گی۔ کچھ نے کہا انہیں ساحر کہا جائے۔ ولید نے کیا یہ ساحر بھی نہیں ہیں۔ ساحروں کی کوئی بات ان میں نہیں ہے۔ اس شخص کے کلام میں بڑی شیرینی ہے اور اثر گہرا ہے۔اس پر ابوجہل برہم ہوا اور کہا تمہاری قوم اس وقت تک تم سے راضی نہ ہو گی جب تک تم کوئی بات محمد پر چسپاں نہ کرو۔ اس پر ولید نے کہا مجھے سوچنے دو۔ اس نے دیر تک سوچ کر کہا قریب ترین بات یہ ہے کہ تم اسے ساحر کہو۔ اس پر سب نے اتفاق کیا اور حج کے موقع پر قریش کے لوگوں نے باہر سے آنے والوں میں یہ بات کہنا شروع کی کہ یہاں ایک جادوگر شخص کھڑا ہوا ہے جو خاندانوں میں تفریق ڈالتا ہے۔ اسی طرح خود کفار قریش نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام سب لوگوں میں مشہور کر دیا۔

۱۔ ذَرۡنِیۡ: خطاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے کہ آپ مجھے اس شخص سے نبٹنے دیں جس نے قریش کو مشورہ دیا ہے کہ آپ کو ساحر کہا جائے۔ اسے مجھ پر چھوڑ دیں۔ اس کا معاملہ میرے ساتھ ہے اور میں ہی اسے قرار واقعی سزا دوں گا۔

۲۔ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا: اس فقرے کی دو تشریحات ہیں۔ ایک کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے یہ اس وقت تنہا تھا۔ اس کے پاس مال و اولاد میں سے کچھ نہ تھا۔ اب ان سب کو اس سے سلب کرنا میرے اختیار میں ہے۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ اس شخص کا معاملہ مجھ پر چھوڑ جسے میں نے اکیلا خلق کیا ہے۔ اسے خلق کرنے میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ تھا۔

۳۔ وَّ جَعَلۡتُ لَہٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا: اور اس شخص یعنی ولید بن مغیرہ کو میں نے وسیع دولت دے رکھی ہے۔ کہتے ہیں یہ بڑا مالدار تھا۔ اس کے بہت سے اونٹ اور طائف میں باغات تھے۔ کہتے ہیں اس آیت کے نزول کے بعد اس کا مال تلف ہونا شروع ہو گیا اور وہ مر گیا۔

۴۔ وَّ بَنِیۡنَ شُہُوۡدًا: اور اسے حاضر رہنے والے بیٹے بھی دیے۔ کہتے ہیں ولید کے بارہ بیٹے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور خالد بن ولید ہے۔ ان بیٹوں کے لیے شہود (حاضر) کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدمت کے لیے یا محافل میں باپ کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے ہیں جو اس شخص کے لیے باعث رونق تھے۔

۵۔ وَّ مَہَّدۡتُّ لَہٗ تَمۡہِیۡدًا: اور میں نے اس کے لیے راہ ہموار کی۔ یعنی آسائش، جاہ و ریاست اور سرداری کی راہ ہموار کی لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں ہے اور مزید سرداری اور دولت کی طمع رکھتا ہے۔ اس طمع میں وہ اللہ کے رسول کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔


آیات 11 - 15