آیات 43 - 44
 

یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے گویا وہ کسی نشانی کی طرف بھاگ رہے ہوں۔

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ ذٰلِکَ الۡیَوۡمُ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ ان کی آنکھیں جھک رہی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، یہ وہی دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

تشریح کلمات

نُصُبٍ:

( ن ص ب ) ان نصب شدہ پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین قربانی کرتے تھے اور ان پتھروں کی یہ پرستش بھی کرتے تھے۔ انصاب، بت نہیں چونکہ بت تراشیدہ ہوتے ہیں۔ العین میں آیا ہے: النصب حجر کان ینصب فیعبد و تصب علیہ دماء الذبائح۔ سورہ مائدہ : ۳ میں ہے: مرداروں میں ہے وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ جو نصب شدہ پتھروں پر ذبح کیا گیا ہو۔ ابن عباس نے نصب سے مراد نشان لی ہے۔ (قرطبی)

یُّوۡفِضُوۡنَ:

( ف ی ض ) تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے۔

تَرۡہَقُہُمۡ:

( ر ہ ق ) ان رھقہ الامر۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا۔

تفسیر آیات

۱۔ کافر لوگ قبروں سے حساب گاہ کی طرف تیزی کے ساتھ دوڑ رہے ہوں گے۔ جس طرح چوزے انڈوں سے نکلتے ہیں لیکن یہ حساب گاہ کی طرف دوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ قدرت اپنی مخلوقات کو جب فطرت کی راہ پر لگا دیتی ہے تو اسے تیزی کرنا پڑتی ہے۔ اسے یہ سوچنے کا موقع نہیں ملتا آگے جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے۔

وہ اس طرح قبروں سے نکل کر دوڑ رہے ہوں گے جس طرح دوڑ کی مسابقت میں نشانی کی طرف دوڑ رہے ہوں۔

۲۔ خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ: نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ذلت و رسوائی ان پر مسلط ہو گی۔ یہ ہولناک دن وہی دن ہو گا جس کا ان کافروں سے وعدہ کیا گیا تھا اور وہ اس دن کی تکذیب کرتے تھے۔

ربنا نعوذبک من فزع ذلک الیوم الذی ھو الفزع الاکبر و اجعلنا من الذین لا یحزنہم الفزع الاکبر و تتلقاہم الملائکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون۔


آیات 43 - 44