آیت 12
 

وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّ لَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲ ۔اور تمہیں اپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گا اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولاد ہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔

تشریح کلمات

کَلٰلَۃً:

( ک ل ل ) باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث ہو وہ کلالۃ ہے۔

تفسیر آیات

صحیح السند روایت کے مطابق حضرت عمر نے رسول اکرم (ص) سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ (ص) نے فرمایا:

اللہ نے اسے واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً ۔ گویا حضرت عمر سمجھ نہ سکے۔ پھر دوسری آیت نازل ہوئی یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ (نساء ۴ : ۱۷۶۔ لوگ آپ سے ( کلالہ کے بارے میں ) دریافت کرتے ہیں ۔ ان سے کہدیجئے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے۔) تو بھی حضرت عمر سمجھ نہ سکے۔ حضرت عمر نے حفصہ سے کہا کہ جب رسول اللہ (ص) خوش مزاجی کی حالت میں ہوں تو کلالہ کے بارے میں پوچھ لینا۔ حفصہ نے پوچھا تو حضور (ص) نے فرمایا: تمہارے باپ نے پوچھنے کے لیے کہا تھا؟ ما اری اباک یعلمھا ابدا ۔ لگتا ہے کہ تمہارا باپ کبھی بھی اس مسئلے کو نہیں جان سکے گا۔ (تفسیر المنار ۴ : ۴۲۳)

صاحب المنار فرماتے ہیں:

یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ حضرت عمر سے بھی کمتر لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ و للّٰہ فی البشر شؤون ۔

وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ:

زوجین کاحصہ۔ اس آیہ شریفہ میں پہلے زوجین کی وراثت بیان فرمائی۔ اس میں درج ذیل مسائل ہیں:

i۔ زوجین کی میراث تمام طبقات میں موجود ہوتی ہے۔

ii۔ زوجہ کی اولاد نہ ہو تو شوہر زوجہ کے ترکے کا نصف (۲/ ۱) حصہ لے گا اور اگر اولاد ہو تو ایک چوتھائی (۴/ ۱) حصہ لے گا۔

iii۔ شوہرکی اولاد نہ ہو توزوجہ شوہر کے ترکے کا ایک چوتھائی (۴ /۱) حصہ لے گی اور اگر اولاد ہو تو آٹھواں (۸/ ۱) حصہ لے گی۔

iv۔ شوہر بیوی کے ترکے میں سے منقولات اور غیرمنقولات سب میں سے حصہ لے گا۔ جب کہ بیوی شوہر کے ترکے میں سے صرف منقولات میں سے حصہ لے گی۔ غیرمنقولات اگر زمین میں نصب شدہ چیزیں ہیں، جیسے مکان، درخت وغیرہ تو ان کی قیمت میں سے حصہ لے گی اور زمین میں سے حصہ نہیں دیا جائے گا۔

یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً: طبقہ دوم (بھائی، بہنیں اور اجداد)۔ میت نے اگر اپنے پسماندگان میں ایک مادری بہن یا ایک مادری بھائی چھوڑا ہو تو اسے کل ترکے میں سے چھٹا (۶/ ۱) حصہ ملے گا۔

vi۔ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ: اگر ایک سے زائد بہن بھائی ہوں تو یہ سب کل ترکے کے ایک تہائی (۳/ ۱) حصے میں شریک ہوں گے۔ یعنی بہن بھائی سب برابر تقسیم کریں گے۔ یہاں مرد و عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ فقہاء نے (ماں شریک) بہن بھائی کے بارے میں بتلایا ہے، اگرچہ آیت میں اس کی صراحت نہیں ہے لیکن یہ ایک اجماعی مسئلہ ہے۔

vii۔ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ: یہ تقسیم وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی۔ قرض اور وصیت میں سے قرض مقدم ہے۔ یعنی قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچتا ہے تو اس کے ایک تہائی میں وصیت نافذ ہو گی، باقی دو تہائی وارثوں میں تقسیم ہو گا۔

وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ: دراصل یوصیکم وصیۃ من اللہ ہے۔ یعنی یہ نصیحت اللہ کی طرف سے تاکیدی نصیحت ہے، جس میں کس قسم کے تغیر و تبدل کی اجازت نہیں ہے۔

غَیۡرَ مُضَآرٍّ ّ سے یہ سمجھانا مطلوب ہے کہ انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وصیت کے ذریعے حقیقی ورثاء کو ضرر پہنچائے۔ یعنی ایک ثلث (۳/ ۱) سے زائد پر وصیت کرنا ورثاء پر ظلم ہے جو شرعاً نافذ بھی نہیں ہے نیز وصیت کے ذریعے قرض پر بھی اثرا نداز ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ قرض بہرحال مقدم ہے۔

تعصیب کی شرعی حیثیت: آیت میں اس بات پر کوئی صراحت موجود نہیں ہے کہ کل ترکہ حصوں سے زائد آنے کی صورت میں کسے دینا ہے۔ مثلاً صرف ایک لڑکی وارث ہونے کی صورت میں قرآن نے یہ تو بتا دیاکہ کل ترکے کا نصف (۲/ ۱) حصہ لڑکی کو ملے گا لیکن باقی نصف (۲/ ۱) حصے کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ یہ کس کا حصہ ہے؟ لہٰذا اس زائد مقدار کے بارے میں کوئی مؤقف اختیار کرنے کے لیے اس آیت کے علاوہ دیگر دلائل کی ضرورت ہے۔

تعصیب کا مؤقف: اس مؤقف کے مطابق نصف سے زائد حصہ دوسرے طبقے کے وارثوں کا ہو گا۔ مثلا بھائی، بہن، چچا، بھانجا اور بھتیجا وغیرہ۔

فقہ جعفری کا مؤقف: اس مؤقف کے مطابق باقی نصف (۲/ ۱) حصہ بھی اسی لڑکی کا ہے۔ لہٰذا لڑکی کو آدھا (۲/ ۱) حصہ فرضاً ملے گا اور دوسرا آدھا (۲/ ۱) حصہ رداً ملے گا۔ اس طرح لڑکی کل ترکے کی وارث بن جائے گی۔

تعصیب کی دلیل: اس سلسلے میں درج ذیل دو احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ زائد حصہ دوسرے طبقے کے وارثوں کا ہو گا ۔

۱۔ طاؤس کی ایک مرسلہ روایت اور ابن عباس کی روایت، جس میں کہا گیا ہے:

الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھو لاولی رجل ذکر ۔

فرائض ان کے صاحبان کو دے دو۔ جو بچ جائے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کی طرف زیادہ قریب ہے۔

جواب: اولاً یہ حدیث عبد اللہ بن طاؤس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ کیونکہ ابن طاؤس اموی خلیفہ کا خیر خواہ اور اہل بیت (ع) کا دشمن تھا۔ اس لیے علمائے رجال اس کی روایت کو مخدوش قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو العتب الجمیل ۱۰۳۔ الکامل ج ۵ ص ۴۴۔ تہذیب التہذیب ج ۵ ص ۲۶۸۔

ثانیاً خود ابن عباس اور طاؤ س نے انکار کیا ہے کہ ہم نے اس مضمون کی کوئی روایت بیان نہیں کی۔ ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ج ۵ ص ۲۶۸۔ ان کتب میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ روایت طاؤس کے بیٹے عبد اللہ کی ساختہ اور بافتہ ہو گی۔ کیونکہ یہ بنی ہاشم کا سخت ترین دشمن اوربنی امیہ کا خیرخواہ تھا۔

۲۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضور (ص) نے سعد بن ربیع کی دو بیٹیوں کو دو تہائی (۳/ ۲) حصہ دیا۔ ان کی ماں کو آٹھواں (۸/ ۱) حصہ اور باقی ان کے چچا کو دے دیا۔

جواب: یہ حدیث اس کے ایک راوی عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اصحاب رجال نے اس کی حدیث سے اجتناب کرنے کی سفارش کی ہے اور اس پر حافظے کے فقدان کا الزام لگایا ہے ۔ ملاحظہ ہو المجروحین من المحدثین ج ۲ ص ۴۱، الجرح و التعدیل ج ۲ ص ۱۵۴۔ تہذیب التہذیبج ۶ ص ۱۳ ۔ ۱۵ نیز ترمذی کی سند میں موجود عبید اللہ بن عمر کے بارے میں علمائے رجال کہتے ہیں: یہ زیادہ لغزش کار ہے۔ ملاحظہ ہو تذکرۃ الحفاظ ج ۱ ص ۲۴۱۔

فقہ جعفری کا مؤقف: فقہ جعفری اپنے مؤقف پر قرآن اور سنت سے استدلال کرتی ہے۔

۱۔ قرآن میں ارشاد ہے :

وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۸ انفال : ۷۵)

اس آیت میں قانون وراثت کا ایک اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کے تحت بعید سے زیادہ قریبی حقدار ثابت ہوتا ہے۔ علماء نے اس آیت کے تحت ایک کلیہ بھی وضع کیا ہے: الاقرب یمنع الابعد ۔ یعنی دور کے رشتہ داروں کے وارث بننے میں قریبی رشتہ دار مانع ہیں۔ لہٰذا طبقۂ اول کے وارث، طبقۂ دوم کے لیے مانع ہیں۔ اسی لیے امامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے دوسرے رشتے دار، مثلا بھائی، بھتیجہ، چچا کا لڑکا وغیرہ وارث نہیں بن سکتا۔

دوسری آیت:

اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗۤ اُخۡتٌ فَلَہَا نِصۡفُ مَا تَرَکَ ۚ وَ ہُوَ یَرِثُہَاۤ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہَا وَلَدٌ ۔۔ (۴ نساء: ۱۷۶)

اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس ) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا۔

اس ایک آیت میں امامیہ مؤقف کے حق میں دو دلائل موجود ہیں:

الف:آیت کی روسے بے اولاد بہن کا وارث بھائی ہوتا ہے، لیکن اگر بہن لا ولد نہیں ہے اور اس کے ہاں بیٹی موجود ہے تو بھائی وارث نہیں ہوتا بلکہ بیٹی وارث ہوتی ہے۔

ب:بے اولاد بھائی کی وارث بہن ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بھائی لا ولد نہیں ہے اور اس کے ہاں بیٹی موجود ہے تو بہن کو نصف حصہ نہیں ملتا بلکہ بیٹی وارث ہوتی ہے۔

واضح رہے آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص لا ولد مر جائے۔ وَل د کا لفظ بیٹا اور بیٹی دونوں پر بولا جات اہے۔ دلیل عرف کے علاوہ یہ ہے کہ وَلد کی جمع اولاد ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ( ۶۴تغابن: ۱۵ ۔ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس یقینا آزمائش ہیں۔) اور وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ (۲ بقرہ : ۲۳۳ ۔ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔) میں اولاد میں بیٹا اور بیٹی دونوں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ جمع اسی معنی کی تکثیر کے لیے آتی ہے جو مفرد میں مراد لیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس طرح اَوۡلاد بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے بولا جاتا ہے اسی طرح وَلَد بھی دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے۔ بعد میں اولاد کی تشریح فرمائی۔ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ اس جگہ ذَّکَرِ اور اُنۡثَی اولاد کی تفصیل میں ہے۔ اس کے علاوہ خود لفظ کلالۃ اس بات پر دلیل ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن، بھائی وارث نہیں بن سکتے۔ کیونکہ کلالۃ اس وارث کو کہتے ہیں جو والدین اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں ارث لیتا ہو۔ اگر بیٹی موجود ہے تو کلالۃ کی نوبت نہیں آتی۔ عرب کہتے ہیں لم یرثہ کلالۃ یعنی یہ میراث معروضی حالت نہیں، بلکہ قرابتداری کی وجہ سے ہے۔

تیسری آیت :

لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ (۴ نساء :۷)

جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت، عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے ۔

اس آیت میں صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ عورت کو کسی صورت میں بھی ارث سے محروم نہیں رکھا گیا۔ جب کہ تعصیب کے تحت صرف میت کے مرد رشتہ داروں کو وارث بنایا جاتا ہے، جو اطلاق آیت کے خلاف ہے۔آئندہ ہم بیان کریں گے کہ سنت میں بھی کوئی ایسی حجت موجود نہیں ہے جو اس آیت کے اطلاق کو مقید کر دے۔ یہ وہی رسم جاہلیت ہے کہ عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر ارث سے محروم رکھا گیا ہے۔

۲۔ سنت از طریق اہل سنت: واثلۃ بن اسقع راوی ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا :

المرأۃ تحوز ثلاث مواریث، عتیقھا، لقیطھا، و ولدھا الذی تلا عن علیہ (ملاحظہ ہو المسند ۳ :۴۹۰۔ ابن ماجہ باب تحوز المرأۃ ثلاث مواریث )

عورت تین ترکے لے گی۔ ایک اپنی آزاد کردہ لونڈی کا، دوسرا اس بچے کا جسے راہ میں پا کر پرورش کرے اور تیسرا اس بچے کا جس پر اپنا خاوند لعان کرے۔

ملاعنت شدہ بچے کا باپ اس کا وارث نہیں ہو سکتا تو یہ ارث ماں کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ حالانکہ ماں کا حصہ قرآن میں متعین ہے، اس کے باوجود اس بچے کے باپ کا حصہ ماں کی طرف لوٹ جاتا ہے، جو عیناً فقہ جعفری کا مؤقف ہے۔

ایک لڑکی، ایک زوجہ اور ایک غلام میں تقسیم ترکہ کے بارے میں سوید بن غفلۃ سے روایت کی ہے:

قال: کان علی(علیہ السلام) یعطی الا بنۃ النصف والمرء ۃ الثمن و یرد ما بقی علی الا بنۃ ۔ (ملاحظہ ہو کنز العمال ۱۱ : ۷۔ بیہقی السنن الکبریٰ)

حضرت علی علیہ السلام بیٹی کو آدھا (۲/ ۱) حصہ دیتے اور زوجہ کو آٹھواں (۸/ ۱) حصہ دیتے اور باقی پھر بیٹی کو لوٹا دیتے تھے۔

از طریق ائمہ اہل البیت علیہم السلام: امامیہ کی کتب احادیث میں ائمہ اہل البیت علیہم السلام کی روایات تواتر سے موجود ہیں کہ تعصیب باطل ہے اور جو مقدار کل حصوں سے زائد آئے، وہ انہی وارثوں کو لوٹا دینی چاہیے۔ چنانچہ ابن عباس اور ابن زبیر بیٹی کو پوری وراثت دینے کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن کثیر)

کیا مرد کو ارث میں برتری حاصل ہے؟: خاندان کی تشکیل کے لیے مرد اور عورت میں سے ہر ایک پر اپنی فطری استعداد اور تقاضوں کے مطابق ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان میں سے ہر ایک اس خاندانی نظام میں ایک منصب رکھتا ہے۔ اس منصب کے مطابق اس خاندان پر آثار مرتب ہوتے ہیں اور ہرمنصب بدلنے سے اس پر مرتب ہونے والے اثرات بدلتے ہیں۔ مثلاً اس خاندانی نظام میں زید، بیٹے کے منصب پر فائز ہے۔ باپ کے بعد خاندانی نظام کا سرپرست اعلیٰ یہی ہو گا۔ اس منصب کے مطابق باپ کے ترکے میں سے اسے زیادہ حصہ ملے گا۔ یہی زید دوسرے وقت میں بیٹے کے نہیں، مرنے والے کے باپ کے منصب پر فائز ہے اور اس کے ساتھ مرنے والے کی اولاد بھی ہے، خواہ وہ بیٹی ہو، تو اس صورت میں اس خاندانی تشکیل و تنظیم میں وہ بیٹی باپ سے زیادہ مسؤلیت رکھتی ہے، لہٰذا یہاں باپ (مرد) کو کم اور بیٹی (عورت) کو زیادہ حصہ ملے گا۔ اگرمرد و زن اس خاندان کی تنظیم میں برابر کی اہمیت رکھتے ہیں تو حصے برابر ہو سکتے ہیں۔ جیسے مرنے والے کے پسماندگان میں بیٹا اور والدین ہیں تو ماں باپ دونوں کو برابر یعنی ہر ایک کو چھٹا (۶/ ۱) حصہ ملتا ہے۔ اسی طرح اگر مرنے والے کے ایک سے زائد بہن، بھائی ہوں تو کل ترکہ ان میں برابر تقسیم ہو گا۔ یہاں مرد و عورت مساوی ہیں۔

اگرمیراث کی تقسیم مرد و زن کی قدر و قیمت کے اعتبار سے ہوتی ہو تو ہر جگہ عورت کی ایک جیسی حیثیت ہونی چاہیے اور ہمیشہ مرد کو عورت کے دو برابر حصہ ملنا چاہیے۔

قابل توجہ:اگرچہ بعض اوقات مرد کا حصہ عورت کے حصے سے دوگنا ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں عورت کے اخراجات کا پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ مثلاً ارث میں مرد کو دو ہزار اور عورت کو ایک ہزار روپے ملے ہیں تو مرد ایک ہزار اپنے اوپر اور ایک ہزار عورت پر خرچ کرے گا۔ لہٰذا خرچ کے لیے مرد کے پاس صرف ایک ہزار ہے، جب کہ عورت کے پاس دو ہزار۔ ایک ہزار شوہر کی طرف سے اور ایک ہزار اپنی ارث کا حصہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرپرستی کے اعتبار سے مال کا دو تہائی (۳/ ۲) حصہ مرد کی سرپرستی میں دیا ہے اور ایک تہائی (۳ /۱) حصہ عورت کی سرپرستی میں، جب کہ خرچ کے اعتبار سے مال کا ایک تہائی (۳/ ۱) حصہ مرد اور دو تہائی (۳/ ۲) حصہ عورت کے اختیار میں دیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ میراث کی تقسیم عائلی نظام میں حاصل مقام کے مطابق ہوتی ہے۔

۲۔ بعض مقامات پر مرد کا دگنا حق، اس کی برتری کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ حسن تقسیم پر مبنی ہے۔

۳۔سرپرستی کے لحاظ سے مرد کو دگنا جب کہ مخارج کے لحاظ سے عورت کو دگناحصہ دیا گیا ہے۔


آیت 12