آیت 11
 

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔

تفسیر آیات

روایت ہے کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب کافروں نے کہا: مسلمان اگر حق پر ہوتے تو وہ مصیبتوں سے دوچار نہ ہوتے۔

۱۔ مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ: مصیبت ایسے حادثہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لیے نامطلوب اور باعث ضرر و اذیت ہوتا ہے۔

بِاِذۡنِ: عدم مانع، رکاوٹ نہ ڈالنے اور ہونے دینے کو اذن کہتے ہیں۔ یعنی اللہ سبب اور علت کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لیے جو تکوینی نظام قائم کیا ہے وہ علت و معلول اور سبب و مسبب کا قانون ہے اور انسان کے لیے یہ قانون ارتقاء و اختیار کی بنیاد پر ہے۔ یہ نظام اپنی جگہ ایک ممتحن کی طرح ہے جو غیر جانبدار ہے۔ چنانچہ اس نظام میں ظالم ظلم کر سکتا ہے، چھری مظلوم کا گلا کاٹ سکتی ہے، گولی مومن کے سینے کو چھلنی کر سکتی ہے، دھماکے تباہی مچا دیتے ہیں۔ ایک مکمل علت کے وجود میں آنے کے بعد معلول کا وجود میں آنا اس نظام تکوینی میں لازمی ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ تیز دھار چھری مومن کا گلا نہ کاٹے اور کافر کا گلا کاٹ دے۔ گولی مومن کے سینے پر اثر نہ کرے اور کافر کا سینہ چھلنی کر دے۔ ایسا جانبدارانہ نظام نہیں ہے:

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۲۲﴾۔۔۔۔ (۵۷ حدید: ۲۲)

مصائب میں سے کوئی مصیبت زمین پر اور تم پر نہیں پڑتی مگر یہ کہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے۔

لہٰذا مسلمان یہ توقع نہ رکھیں کہ نظام کائنات ان پر نافذ نہ ہو گا اور حوادث کے شکار نہ ہوں گے۔ بھوک، پیاس، زخم، شہادت وغیرہ سے دوچار ہوں گے۔

البتہ اذن سے مراد اذن تکوینی ہے، اذن تشریعی نہیں ہے۔ ممکن ہے ایک جگہ اذن تکوینی ہو، اذن تشریعی نہ ہو۔ مثلاً ظالم کی تیز دھار چھری میں مظلوم کا گلا کاٹنے صلاحیت ہے۔ یہ اذن تکوینی ہے لیکن ایسا کرنے کا اذن تشریعی نہیں ہے۔ شریعت نے تو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ ایسا کرنے سے منع اس لیے کیا ہے کہ ظالم ایسا کر سکتا ہے۔ اگر اللہ کے نظام میں ظالم کے لیے ایسا کرنے کی طاقت سرے سے نہ ہوتی تو ایسا کرنے سے منع بھی نہ کیا ہوتا۔۔

۲۔ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ: ایمان باللہ کا نتیجہ ہے کہ حوادث اور صبر آزما مصائب میں مومن کا ہدایت یافتہ دل اس راز کو خدا داد ’’ہدایت و رہنمائی‘‘ کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ یہ اللہ کے وضع کردہ نظام کا لازمی حصہ ہے جو آزمائشی بنیادو ں پر حکیمانہ ہے۔

۳۔ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ: جو کچھ رونما ہونے والا ہے علم خدا سے خارج نہیں ہے کہ اس کے وضع کردہ عادلانہ نظام میں کیا حوادث رونماہونے والے ہیں۔


آیت 11