آیت 5
 

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۵﴾

۵۔ اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ سے مال کے متعلق اسلام کا درج ذیل تصور سامنے آتا ہے :

i۔ مالک حقیقی اللہ ہے۔

ii۔ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا: اللہ نے مال کو پورے معاشرے کے نظام معیشت کے قیام کا ذریعہ بنایا۔ جس کے بغیر کوئی امت اپنا استقلال برقرار نہیں رکھ سکتی اور اقتصادی بدحالی میں کوئی قوم اپنی کمر سیدھی اور سر اونچا نہیں رکھ سکتی۔

iii۔ مال کو اجتماعی ملکیت سے خصوصی ملکیت میں منتقل کرنے کے لیے اسلام نے قانون وضع کیے۔ مثلاً:

الف۔ ایجاد ملکیت، صرف محنت کے ذریعے ہی شخصی ملکیت میں منتقل ہو سکتی ہے۔

ب: انتقال ملکیت ہو تو وراثت، تجارت اور ھبہ وغیرہ سے ہو سکتی ہے ۔

ج: خصوصی ملکیت کے حقوق دینے کے لیے شرط ہے کہ اس سے اجتماعی حقوق متاثر نہ ہوتے ہوں، ورنہ یہ حقوق یا تو کلی طور پر سلب ہوں گے، حدیث رسولؐ ہے:

لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام ۔ (الوسائل ۲۶: ۱۴ باب ان الکافر لا یرث )

اسلام کے کسی قانون میں ضرر کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔

یا جزئی طور پر سلب ہوں گے اور پوری امت کو ان حقوق و ضوابط کی نظارت کرنا ہو گی۔

اس سلسلے میں اس آیہ شریفہ میں پورے معاشرے کو مخاطب کر کے فرمایا: اپنے اموال کو بے وقوف اور کم عقلوں کے ہاتھ میں نہ دو۔ یہاں چونکہ مال کے ضیاع کا خوف تھا، اس لیے جزئی طور پر کم عقلوں سے شخصی اور خصوصی تصرف کا حق سلب کیا جاتا ہے اور صرف ان کے کھانے اور پہننے کی چیزیں انہیں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں تولیت اور نظارت کا حق ان کے باپ دادا کو ملتا ہے۔ باپ دادا نہ ہونے کی صورت میں شرعی حکومت کو یا عادل مومنین کو نظارت کرنا ہو گی۔ سفیہ، دیوانہ اور یتیم وغیرہ ان لوگوں میں سے ہیں جو محجور ہیں۔ یعنی مسلوب التصرف ہیں۔

وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا: ان سے اچھے اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات کرو۔ اگرچہ یہ لوگ کم عقل ہیں لیکن پھر بھی احترام آدمیت کے تحت ان کی تحقیر جائز نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ مال معاشرے کے لیے ستون کی حیثیت رکھتا ہے: لَکُمۡ قِیٰمًا ۔۔۔۔

۲۔ شخصی اموال کی حفاظت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے: وَ لَا تُؤۡتُوا ۔۔۔۔

۳۔ کم عقل لوگ بھی احترام آدمیت کا حق رکھتے ہیں: قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۔۔۔۔


آیت 5