آیت 2
 

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔

تشریح کلمات

الۡاُمِّیّٖنَ:

( ا م م ) الامی۔ اس کے معنی ناخواندہ سے کیے جاتے ہیں لیکن یہ لفظ یہودی اصطلاح ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسری قوموں کو اہانت کے طور پر اُمی کہتے ہیں۔ قرآنی اصطلاح میں جنہیں کتاب نہیں دی گئی یعنی جو اہل کتاب نہ ہوں انہیں اُمی کہتے ہیں اور اہل کتاب میں بھی جو لوگ کتاب نہیں پڑھ سکتے انہیں بھی قرآن نے اُمی کہا ہے:

وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۷۸)

ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (تورات) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے۔

ابن عباس سے روایت کے مطابق عربوں کو اُمی کہتے ہیں خواہ خواندہ ہوں یا ناخواندہ۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ: اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے غیر اہل کتاب میں سے ایک رسول مبعوث کیا یعنی ناخواندہ قوم میں سے ایک معلم کو مبعوث کیا۔ غیر تعلیم یافتہ قوم میں سے ایک تعلیم دہندہ کو مبعوث کیا۔ جاہل قوم میں سے ایک مقتدر عالم کو مبعوث کیا۔ یہ خود اس رسول کی رسالت پر ایک واضح دلیل ہے۔

آگے اس معلم کی تعلیم کے مضامین کا ذکر ہے۔ وہ مضامین یہ ہیں: تلاوت آیات، تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم۔

۲۔ وَ الۡحِکۡمَۃَ: حکمت واقع بینی اور حقیقت شعاری کو کہتے ہیں۔ خطا اس کی ضد ہے۔ لہٰذا حکمت کی تعلیم سے مراد حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ تمام مشکلات کی بنیاد حقائق تک رسائی نہ ہونا ہے۔ حقائق تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان ایک موہوم چیز کے پیچھے اپنی زندگی تلف کر دیتا ہے۔ زندگی ایک سراب کی مانند ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کام لوگوں کو سراب سے نکالنا، حقائق سے روشناس کرانا ہے۔

دیگر مضامین کی تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ بقرہ آیت ۱۵۱۔

۳۔ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ: اس رسول اُمی کے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ نہ دنیاوی زندگی کے بارے میں کچھ جانتے تھے، نہ تہذیب و تمدن سے آشنا تھے اور نہ آخرت اور ابدی زندگی کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔ دنیا و آخرت دونوں کے اعتبار سے گمراہ تھے۔


آیت 2