آیات 2 - 4
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟

کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾

۴۔ اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

تشریح کلمات

مَقۡتًا:

( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھنے کے ہیں۔

مَّرۡصُوۡصٌ:

( ر ص ص ) چیزوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑنے کو کہتے ہیں۔ سیسہ کو اسی وجہ سے رصاص کہا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ: اول تو نہایت قبیح ہے کہ انسان کا کردار کچھ اور گفتار کچھ اور ہو۔ گفتار و کردار میں تضاد شخصیت میں خلا کی علامت ہے اور نفاق کی ایک صورت مگر ان تین آیات کو جب ہم سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اصل شان نزول جہاد کے بارے میں ہے۔ ان لوگوں کی مذمت کرنا مقصود ہے جن کی شخصیت میں خلا اور ایمان میں کمزوری ہے اور راہ خدا میں جان نثاری کے بارے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جہاد کا وقت آتا ہے تو بھاگ جاتے ہیں۔

۲۔ کَبُرَ مَقۡتًا: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان بھاگنے والوں کو بہت بڑا مبغوض کَبُرَ مَقۡتًا کہا ہے اور ان لوگوں کے مقابلے میں راہ خدا میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والوں کو اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فرما کر اپنا محبوب قرار دیا۔

ایسے بزدل، ضعیف الایمان لوگوں کے بارے میں سورہ نساء آیت ۷۷ میں ذکر آیا ہے نیز سورہ محمد آیت ۲۰ میں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ وَّ ذُکِرَ فِیۡہَا الۡقِتَالُ ۙ رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یَّنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ نَظَرَ الۡمَغۡشِیِّ عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ؕ فَاَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿۲۰﴾

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں: کوئی (نئی) سورت نازل کیوں نہیں ہوئی؟ (جس میں جہاد کا ذکر ہو) اور جب محکم بیان والی سورت نازل ہو اور اس میں قتال کا ذکر آ جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو گئی ہو، پس ان کے لیے تباہی ہو۔

مؤلف تفہیم القرآن اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

مفسرین نے اس آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں جن پر یہاں گرفت کی گئی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں: جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے: کاش ہمیں وہ عمل معلوم ہو جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں گے۔ جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہو گیا۔ مقاتل بن حیان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کو دشمنوں کے مقابلے کے لیے نکلنا پڑا تو ہم آپ کے ساتھ نکلیں گے۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں: بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ملامت کی ہے۔

۳۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ: جہاد سے کترانے والوں کے قول و فعل میں تضاد کو مبغوض قرار دینے کے بعد ان مجاہدوں کا ذکر آیا جن سے اللہ محبت کرتا ہے کیونکہ وہ راہ خدا میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ناقابل شکست ہو کر لڑتے ہیں۔ شیعہ مصادر کے علاوہ بعض سنی مصادر میں آیا ہے کہ اس آیت کا مصداق حضرت علی بن ابی طالب - کی ذات گرامی صفات ہے۔

شواہد التنزیل ۲: ۳۳۷ میں ضحاک ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: حمزہ جو اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں اور علی ابن ابی طالب، عبیدۃ بن الحارث اور مقداد بن الاسود ۔

اس کتاب میں دوسری روایت میں کہا ہے: یہ آیت نازل ہوئی علی، حمزہ، عبیدہ، سہل ابن حنیف، حارث بن صمہ اور ابی دجانہ کے بارے میں۔

اہم نکات

۱۔ اس آیت میں گفتار کے غازی اور میدان کے غازی کی نشاندہی فرمائی ہے۔

۲۔ میدان جنگ میں محبوب خدا اور مبغوض خدا کی شناخت ہوتی ہے۔


آیات 2 - 4