آیت 2
 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ ؕؔ مَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمۡ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ فَاَتٰىہُمُ اللّٰہُ مِنۡ حَیۡثُ لَمۡ یَحۡتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ یُخۡرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَیۡدِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ٭ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ﴿۲﴾

۲۔ وہ وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر ہونے والوں کو پہلی ہی بیدخلی مہم میں ان کے گھروں سے نکال دیا، تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے مگر اللہ (کا عذاب) ان پر ایسی جانب سے آیا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنین کے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے، پس اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔

تفسیر آیات

اس سورہ کے اکثر مطالب غزوہ بنی نضیر کے بارے میں ہیں۔ یہ غزوہ جنگ احد کے بعد غالباً سنہ ۴ ہجری میں رونما ہوا تھا۔

واقعہ اس طرح پیش آیا: بنی نضیر کے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں درج ذیل نکات پر اتفاق ہوا:

۱۔ اس معاہدے میں شریک لوگوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرنا۔

۲۔ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔

۳۔ مظلوم کی حمایت کی جائے گی۔

۴۔ جب تک جنگ رہے یہودی بھی جنگ کے مصارف مسلمانوں کے ساتھ برداشت کریں گے۔

۵۔ معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں فساد فتنہ برپا کرنا حرام ہے۔

۶۔ قریش اور ان کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔

۷۔ یثرب پر حملہ ہونے کی صورت میں شرکائے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

اس معاہدے کے بعد یہودیوں نے اس کی خلاف ورزیاں کیں اور اسلام کے خلاف کھل کر سازشوں میں مصروف رہے۔

ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ بنی قینقاع نے ایک دن ایک مسلمان خاتون کی بے حرمتی کی۔ اس پر جھگڑا شروع ہوا۔ ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں امن و سکون سے رہنے کی نصیحت فرمائی تو ان لوگوں نے ان لفظوں میں جواب دیا: اے محمد! ہمیں قریش نہ سمجھو۔ انہیں جنگ لڑنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ ہمارے ساتھ اگر مقابلہ ہوا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے اور مرد کارزار کیسے ہوتے ہیں۔ ان کی طرف سے یہ صریحاً اعلان جنگ تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے محلے کا محاصرہ کیا۔ پندرہ روز کے بعد یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام جنگجوؤں کو باندھ لیا گیا۔ بعد میں عبداللہ ابن ابی (رئیس المنافقین) کی مداخلت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ بنی قینقاع اسلحہ اور سامان چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں۔

دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مسلمانوں سے بنی عامر کے دو آدمی غلطی سے قتل ہو گئے جب کہ ان کے ساتھ معاہدہ تھا اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر کے یہودی بھی شریک تھے اس لیے اس خون بہا میں شرکت کی دعوت دینے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک جگہ بٹھا کر اوپر سے ایک بھاری پتھر گرا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی۔ اللہ نے فوراً آپ کو اطلاع دی اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ تشریف لے آئے اور بنی نضیر کو دس دن کے اندر مدینہ چھوڑنے کا حکم دے دیا لیکن ان یہودیوں نے یہ حکم نہ مانا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ چند دنوں میں وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا سارا مال و متاع ہمراہ لے جائیں گے۔ چنانچہ مدینے کی سرزمین ان یہودیوں سے پاک ہو گئی۔

۱۔ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ: الۡحَشۡرِ منتشر افراد کو جمع کر کے نکالنے کے معنوں میں ہے۔ لہٰذا اول الحشر کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ نے ان یہودیوں کو پہلے حشر میں نکال دیا۔ دوسرے، تیسرے حشر یعنی بیدخلی مہم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لہٰذا اس جگہ حشرثانی کی تلاش ضروری نہیں ہے جیسا کہ مفسرین نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

۲۔ مَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا: مسلمانوں کا خیال تھا کہ یہود اپنے مضبوط قلعوں سے نہیں نکلیں گے چونکہ قلعہ فتح کرنا بہت مشکل ہے۔ اول تو قلعے بہت مضبوط ہیں۔ ثانیاً ان یہودیوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ ثالثاً ان کے پاس اسلحہ کی بھی کمی نہیں ہے۔

۳۔ وَ ظَنُّوۡۤا: خود یہودیوں کا بھی یہی خیال تھا اور انہیں اپنے قلعوں پر ناز تھا کہ ہمارے قلعے کون فتح کرسکتا ہے۔

۴۔ فَاَتٰىہُمُ اللّٰہُ مِنۡ حَیۡثُ لَمۡ یَحۡتَسِبُوۡا: اللہ نے ان پر ایک ایسے نقطے سے حملہ کیا جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ وہ نقطہ ان میں موجود ہمت تھی۔ چنانچہ ان کی ہمت پست ہو گئی اور ان میں قوت مقابلہ نہ رہی۔ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رعب ڈال دیا۔

۵۔ یُخۡرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمۡ: وہ اپنے گھر اپنے ہی ہاتھوں اس لیے خراب کر رہے تھے تاکہ مسلمانوں کے لیے قابل استعمال نہ رہیں۔

۶۔ وَ اَیۡدِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: اور مومنین نے بھی ان کے قلعوں کو توڑنا شروع کیا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے ہاتھوں ان کی آبادی تباہ ہو گئی۔

۷۔ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ: ان قلعہ بند یہودیوں کو ذلت آمیز شکست دینے، اپنی ہی آبادی اپنے ہاتھوں تباہ کرنے اور جلا وطن ہونے میں ان سب کے لیے ایک درس عبرت تھا جو اسلام کے مقابلے میں آنا چاہتے تھے۔


آیت 2