آیات 38 - 39
 

قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿٪۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تشریح کلمات

حزن:

(ح ز ن ) کسی قابل قدر چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر فکرمند ہونا۔۔۔ لِّکَیۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ ۔۔۔ {۳ آل عمران : ۱۵۳}

اصل میں ’’حزن‘‘ کا معنی ’’خشونت‘‘ ہے۔ یُقَالُ: حَزَنَتِ الْاَرْضُ اِذَا خَشَنَت ۔ چونکہ غم و اندوہ کی وجہ سے نفس انسانی میں خشونت آجاتی ہے، اس لیے اسے حزن کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

ھبوط اِلَی الْاَرض کا حکم حضرت آدم ؑ کو دو مرتبہ ملا۔ ایک حکم توبہ سے پہلے اور دوسرا حکم توبہ کے بعد۔

توبہ سے پہلے: اس میں کہا گیا: ’’ تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اترجاؤ۔‘‘ یہ حکم حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہونے کے طبعی اثر کے طور پر صادر فرمایا کہ اب تمہیں زمین پرباہمی عناد و دشمنی پر مشتمل پرمشقت زندگی گزارنا ہو گی۔

توبہ کے بعد: اس حکم میں فرمایا: تم سب یہاں سے اترجاؤ، پھر اگرمیری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

اس حکم میں زمین پر اترنے کے بعد زندگی کے لیے ہدایت و شریعت کا ذکر ہے، جب کہ سابقہ حکم میں باہمی عداوت و دشمنی کا ذکر تھا :

فَتَاَلَّفَتِ الْحَیٰاۃُ مِنْ حَیٰاۃٍ اَرْضِیَّۃٍ وَ حَیَاۃٍ سَمَاوِیَّۃٍ ۔ {المیزان ۱ : ۱۳۵}

پس ارضی زندگی اور سماوی زندگی میں امتزاج پیدا ہو گیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم(ع) کو کسی اور کرہ سے زمین کی طرف روانہ فرمایا گیا تھا۔

زمین: زمین پر اترنے کا حکم ملنے کے بعد روئے زمین پربسنے والوں کے لیے پہلی مرتبہ شریعت اور دستور حیات کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان دو مختصر آیتوں میں آنے والی تمام شریعتوں کا ایک نہایت ہی جامع خلاصہ ذکر فرمایا۔ یہ خلاصہ تین ایسے نکات پر مشتمل ہے جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں:

۱۔ ہدایت: اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ذکر ہے۔ مِّـنِّىْ ھُدًى ۔

۲۔ اتباع: اس میں ہدایت خداوندی کی اتباع کرنے والوں کے اچھے انجام اوران کی حیات ابدی کا ذکر ہے: فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔ جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اسے نہ آئندہ کے بارے میں کسی نقصان کا خوف ہو گا اور نہ کسی گزشتہ خسارے پر حزن و ملال۔

اس آیت میں ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی حیات کی جامع تعریف فرمائی گئی کہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے گی اور زندگی کا سکون غارت کرنے والے دو عوامل

خوف اور حزن ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ۔۔ {۱۳ رعد: ۲۸} یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

۳۔ کفر: آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس ہدایت کی پیروی سے انکار کریں گے۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے: اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

سابقہ بیان سے یہ نکتہ بھی سامنے آیاکہ حضرت آدم(ع) کے زمین پر آنے سے پہلے یہاں کوئی شریعت نہ تھی۔ لہٰذا نہ کوئی معصیت قابل تصور تھی، نہ اطاعت۔

احادیث

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:

وَ اللّٰہِ لَقَدْ خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ لِلدُّنْیَا وَ اَسْکَنَہُ الْجَنَّۃَ لِیَعْصِیَہُ فَیُرَدَّہُ اِلَی مَا خَلَقَہُ لہ ۔ {بحار الانوار ۵ : ۸۹}

خدا کی قسم اللہ نے آدم (ع) کو دنیا کے لیے خلق فرمایا اور انہیں جنت میں ٹھہرایا تاکہ وہ اللہ کی نافرمانی کریں اور انہیں واپس کیا جائے، اس طرف جس کے لیے خلق فرمایا ہے۔

امام رضا علیہ السلام نے مامون کے سوالات کے جواب میں فرمایا:

فَاِنَّ اللّٰہَ عزّ و جلّ خَلَقَ آدَمَ حُجَّۃً فِیْ اَرْضِہٖ وَخَلِیْفَتَہٗ فِیْ بِلَادِہِ لَمْ یَخْلُقْہٗ لِلْجَنَّۃِ وَ کَانَتِ الْمَعْصِیَّہُ من آدَمَ فِی الْجَنَّۃِ لاَ فِی الْاَرْضِ لِتُتِمَّ مَقَادِیْرُ اَمْرِ اللّٰہِ عِزَّ وَ جَلَّ۔ فَلَمَّا اُھْبِطَ اِلَی الْاَرْضِ وَ جُعِلَ حُجَّۃً وَ خَلِیْفَۃً عُصِمَ بِقَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ: اِنَّ اللہَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ۔ {مواہب الرحمٰن ۱ : ۲۱۴}

اللہ تعالیٰ نے آدم (ع) کو زمین پر حجت اور خلیفہ بنایا تھا جنت کے لیے نہیں اور آدمؑ سے جنت میں لغزش سرزد ہوئی زمین پر نہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کے امور کی تقدیر مکمل ہو۔ جب آپ کو زمین پر اتارا گیا اور حجت و خلیفہ بنایا گیا تو اس کے بعد ان سے کوئی لغزش سرزد نہیں ہوئی کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اس کی خلقت اوراس میں پوشیدہ الٰہی اسرار و رموز سے ابتدا ہی میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔

۲۔ اسے ایک دیرینہ دشمن (ابلیس) اور اس کے عزائم سے بھی آگاہ کیا گیاتھا۔

۳۔ فرشتوں پر انسان کی برتری اوراس کا رازبیان ہوا۔

۴۔ علم کو تسبیح و تقدیس سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

۵۔ انسان کو علم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

۶۔ انسان کو زندگی میں کڑی آزمائش سے گزرنا ہو گا، لہٰذا شجرممنوعہ سے متعلق لغزش اور ابلیس کے دھوکے سے ان آزمائشوں کا آغاز ہوا۔

۷۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے انسان خلق کیا ہے اور وہ تحول انواع کے تسلسل کی ایک کڑی نہیں ہے۔


آیات 38 - 39