آیات 77 - 80
 

اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾

۷۷۔ کہ یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے،

فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾

۷۸۔ جو ایک محفوظ کتاب میں ہے،

لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾

۷۹۔ جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ یہ عالمین کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ستاروں کی قسم کھانے اور اس قسم کی عظمت بیان کرنے کے بعد فرمایا: اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ یہ بڑے اکرام والا اور قابل ستائش قرآن ہے۔ نہ یہ کاہنوں کا قول ہے، نہ مجنون کا، نہ داستان پارینہ ہے بلکہ یہ قرآن کریم ہے۔ قسم اور مضمون قسم میں ربط اس طرح ہو سکتا ہے کہ جس ذات نے اس محکم، مضبوط اور منظم کائنات کو خلق فرمایا ہے اسی نے قرآن کو ایک محکم مضبوط اور منظم قانون اور جامع نظام حیات کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ جس طرح کائنات کے نظام میں کوئی خلل نہیں ہے اسی طرح قرآن میں دیے ہوئے نظام حیات، اس کے قوانین میں کوئی خلل نہیں ہے۔ اس قرآن میں بھی کوئی خلل نہیں ہے۔

۲۔ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ: یہ قرآن محفوظ کتاب میں ہے۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے:

بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ﴿۲۲﴾ (۸۵بروج: ۲۱۔۲۲)

بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ لوح محفوظ میں (ثبت) ہے۔

یعنی قرآن کا اصل مستقر لوح محفوظ ہے جہاں سے یہ نازل ہوا ہے۔ اپنے اصل مستقر میں یہ قرآن ہر قسم کے تغیر اور تبدل سے محفوظ ہے۔ یہ محفوظ لوح اس بات کی ضمانت ہے کہ یہاں سے نازل ہونے کے بعد ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہے گا۔ چنانچہ اس کی صراحت اس آیت میں موجود ہے:

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۹﴾ (۱۵ حجر: ۹)

اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

محفوظ لوح سے نازل ہونے والے الذکر کے ہم ہی محافظ ہیں۔

۳۔ لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ: قرآن کی حقیقتوں تک رسائی پاکیزہ ہستیوں کے لیے ہی ممکن ہے۔ یعنی ایک تو وہ فرشتے جو اسے نازل کرتے ہیں، دوسری وہ ہستیاں جن کے گھروں میں قرآن نازل ہوا ہے۔ چنانچہ انہیں آیہ تطہیر نے مطہر قرار دیا ہے۔

وضو اور غسل کے بعد انسان مطہر نہیں، متطہر ہو جاتا ہے جو آیت کا مصداق قرار نہیں پاتا۔ لہٰذا بغیر وضو اور جنابت کی صورت میں بغیر غسل قرآن کی تحریر کو مس کرنا جائز نہ ہونا اس آیت کے ذریعہ نہیں ہے بلکہ الگ دلیل کی وجہ سے ہے۔ البتہ معصوم کی ایک روایت میں بغیر وضو اور جنابت کی حالت میں مس کرنا جائز نہ ہونے پر اس آیت سے استدلال فرمایا ہے۔ ( تہذیب ۱: ۲۲۷ باب الاغسال)

فقہ جعفری کے مطابق قرآنی تحریر کو ہاتھ لگانا بغیر وضو اور جنابت، حیض اور نفاس کی صورت میں بغیر غسل جائز نہیں ہے۔

۴۔ تَنۡزِیۡلٌ: یہ قرآن اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جو عالمین کا رب ہے۔ اس قرآن کا سیاق و سباق، اس کی تعلیمات، اس کا نظم و بیان، اس میں موجود دلائل و براہین اور اس کا بیان کردہ دستور حیات اور حقائق سب بتاتے ہیں کہ یہ عالمین کے واحد رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔


آیات 77 - 80